ہمارے معاشرے میں اور گرد و نواح میں کئی اسا تذہ کرام رہتے ہیں۔ ان کا ادب ہمارے اوپر ضروری ہے۔ پہلے دیہاتوں میں اگر کوئی استاد ہوتا تو بڑے بھی اور چھوٹے بھی ان کی عزت بجا لاتے۔لیکن جیسے جیسے انسان نے ترقی کی ہے وہ اپنوں سے دور ہوتو گیا اور اتنا دور ہوا کہ اس کو اپنے اساتذہ سے بے خبر ہوگیا۔
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا فرمان ہے جس نے مجھے پڑھایا چاہے ایک لفظ ہی پڑھایا میں اس کا غلام ہوں وہ میرا آقا ہے چاہے وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کر دے۔ اتنی عزت اور ادب کیا کرتے تھے۔اسی لئے اس زمانے میں لوگوں کے پاس کھانے پینے کو کچھ خاص نہیں ہوتا تھا لیکن وہ پھر وہ بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ آک کا مسلمان ان اصولوں اور قوانین سے دوری کی بنیاد پر زوال کا شکار ہے اور دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے بڑوں اور اساتذہ کا احترام کرنے والا بنائے۔ آمین
Thursday 10th October 2024 7:16 pm