خلیفہ ہارون ر شید کو بہلول مجنون کی نصیحت
ایک مرتبہ ہارون رشید حج کو جا رہے تھے ۔ راستے میں کوفہ میں چند روز قیام کیا ۔ جب وہاں سے روانگی کا وقت ہوا تو لوگ بادشاہ کی سواری کی سیر کے شوق میں شہر سے باہر جمع ہو گئے ۔ بہلول مجنون بھی پہنچ گئے اور راستہ میں ایک کوڑی پر بیٹھ گئے ۔ بچے ان کو ہر وقت ستایا ہی کرتے تھے۔ ڈلے مارتے ، مذاق کرتے وہ حسب دستور ان کے گرد جمع ہو گئے۔ جب بادشاہ کی سواری قریب آئی تو بچے تو سب اِدھر ادھر ہو گئے ۔
انہوں نے زور سے آواز دے کر کہا ۔ اے امیر المؤمنین اے امیر المؤمنین ہارون رشید نے سواری کا پردہ اٹھایا اور کہنے لگے لبیک یا بہلول لبیک یا بہلول۔ بہلول میں حاضر ہوں، بہلول میں حاضر ہوں ، کہو کیا کہتے ہو ۔ انہوں نے کہا ۔ مجھ سے ایمن نے یہ حدیث بیان کی کہ حضرت قدامہ یہ کہتے ہیں ، کہ جب حضور اقدسﷺ حج کو تشریف لے جا رہے تھے تو میں نے منی ٰ میں آپ کو ایک اونٹ پر سوار دیکھا ۔ جس پر معمولی کجاوا تھا ۔ نہ لوگوں کو سامنے سے ہٹانا تھا، نہ ہٹو بچو کا شور تھا۔ امیر المؤمنین تیرا بھی اس سفر میں تواضع سے چلنا تکبر سے چلنے سے بہتر ہے ۔ ہارون رشید یہ سن کر رونے لگے ۔ پھر کہا، بہلول کچھ اور نصیحت کرو اللہ تعالی ٰ شانہ تم پر رحم کرے۔ بہلول نے یہ سن کر دو شعر پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے کہ مان لے تسلیم کر لے کہ تو ساری دنیا کا بادشاہ بن گیا اور ساری دنیا کی مخلوق تیری مطیع ہو گئی ، پھر کیا ہوا، کل کو تو بہر حال تیرا ٹھکانا قبر کا گڑھا ہے۔ ایک ادھر سے مٹی ڈال رہا ہوگا ایک ادھر سے مٹی ڈالتا ہو گا ۔ اس پر ہارون رشید پھر روئے اور کہنےلگے ۔ بہلول تم نے بہت اچھی بات کہی، کچھ اور کہو ۔
بہلول نے کہا۔ امیرالمؤمنین جس شخص کو حق تعالیٰ شانہ مال اور جمال عطا کرے اور وہ اپنے مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرے اور اپنے جمال کو گناہوں سے محفوظ رکھے وہ اللہ تعالیٰ کے دیوان میں نیک لوگوں میں لکھا جاتا ہے۔ہارون رشید نے کہا تم نے بہت اچھی بات کہی ۔ اس کا صلہ (انعام) ملنا چاہئے ۔ بہلول نے کہا ۔ انعام کا روپیہ ان لوگوں کو واپس کر جن سے (ٹیکس وغیرہ کے طور پر) لے رکھا ہے ۔ مجھے تیرے انعام کی ضرورت نہیں ۔ہارون رشید نے کہا کہ اگر تمہارے ذمہ کسی کا قرض ہو تو میں اس کو ادا کروں بہلول نے کہا کہ امیر المؤمنین قرض سے قرض ادا نہیں کیا جاتا (یعنی یہ روپیہ جو تیرے پاس ہے یہ خود دوسروں کا حق ہے جو تیرے ذمہ ان کا قرض ہے ) حق والوں کا حق واپس کرو ۔ پہلے اپنا قرضہ ادا کرو ، پھر دوسروں کے قرضہ کو پوچھنا ۔ ہارون رشید نے کہا ۔ تمہارے لئے کوئی وظیفہ مقرر کر دیں جس سے تمہارے کھانے کا انتظام ہو جائے ۔ بہلول نے کہا کہ مین اور تم دونوں اللہ تعالیٰ شانہ کے بندے ہیں ، یہ محال ہے کہ وہ تمہاری روزی کا تو فکر رکھے اور میری روزی کا فکر نہ فرمائے ۔ اس کے بعد ہارون رشید نے سواری کا پردہ گرایا اور آگے چل دئیے ۔ ہارون رشید کی مشہور بات ہے کہ نصیحت سننے پر بہت کثرت سے رویا کرتے تھے ۔
ایک مرتبہ حج کو جا رہے تھے تو سعدون مجنون راستہ میں سامنے آ گئے اور چند شعر پڑھے ، جن کا مطلب یہی تھا کہ مان لو تم ساری دنیا کے بادشاہ بن گئے ہو ، لیکن کیا آخر موت نہ آئے گی ۔ دنیا کو اپنے دشمنوں کے لئے چھوڑ دو ۔ جو دنیا آج تمہیں خوب ہنسا رہی ہے یہ کل تمہیں خوب رلائے گی ۔ یہ اشعار سن کر ہارون رشید نے ایک چیخ ماری اور بے ہوش ہو کر گر گئے اور اتنے طویل وقت تک بیہوشی رہی کہ تین نمازیں قضا ہو گئیں ۔ ان کی انگوٹھی کی مہر تھی ” اَلعظمۃ وَ القدرۃ للہ۔” ہر قسم کی بڑائی اور ہر نوع کی قدرت صرف اللہ جل شانہ کے لئے یہ مضمون گویا ہر وقت نگاہ کے سامنے رہتا تھا ۔