اگر بیوہ بچوں کی تربیت کی خاطر دوسرا نکاح نہ کرےتو پوری زندگی اس کوغازی بن زندگی گزارنے کا ثواب دیا جاتا ہے(رواہ البخاری) ایک واقعہ سنئےاور دل کے کانوں سے سنئے،حضرت حسن بصریؒ کا دور ہے،اپ کی ایک شاگردہ جوباقاعدہ اپ کا درس سننے کے لیے ایا کرتی تھی،عبادت گزار خاتون تھیں ،باقاعدہ درس سنتی اور نیکی پر زندگی گزارتی تھی ،اس بےچاری کا جوانی میں خاوند چل بسا،اس نے دل سوچاکہایک بیٹا ہے اگر میں دوسرا نکاح کرلو گی تو مجھے خاوند مل جائےگامگر بچہ کی زندگی برباد ہوجائےگی۔
پتہ نہیں وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرےگا؟اب وہ جوان ہونے کے قریب ہے ،یہی میرا سہارا سہی۔لہذا یہ سوچ کر ماں نے جذبات کی قربانی دی،ایسی عورت کے لیے حدیث پاک میں آیا ہے کہ جو اس طرح اگلی شادی نہ کرےاور بچوں کی تربیت و حفاظت کے لیے اسی طرح زندگی گزارے، تو باقی پوری زندگی اس کو غازی بن کر زندگی گزارنے کا ثواب دیا جائے گا۔ کیونکہ وہ جہاد کرہی ہے ،اپنے نفس کے خلاف۔ وہ ماں گھر میں بچہ کا پورا پورا خیال رکھتی تھی لیکن یہ بچہ جب گھر سے باہر نکل جاتا تو ماں سے نگرانی نہ ہوپاتی،اب اس کے پاس مال کی بھی کمی نہیں تھی،اُٹھتی ہوئی جوانی بھی تھی،یہ جوانی دیوانی مستانی ہوتی ہے ،چنانچہ وہ بچہ بُری صحبت میں گرفتار ہوگیا۔شباب اور شراب کے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ماں برابر سمجھاتی مگر بچہ پر کچھ اثر نہ ہوتا،چکنا گھڑا بن گیا،وہ ان کو حضرت حسن بصریؒ کے پاس لے کر اتی،
حضرت بھی ان کو کئی کئی گھنٹے سمجھاتے،لیکن اُس کا نیکی کی طرف دھیان ہی نہیں تھا، کبھی کبھی ماں سے ملنےآتا،ماں پھر سمجھاتی اور اس کو حضرت کے پاس لے جاتی۔حضرت بھی سمجھاتے دعائیں بھی کرتے مگراس کے کانوں پر جوں نہ رینگتی حتٰی کہ حضرت کے دل میں یہ بات آئی کہ شائد اب اس کادل پتھر بن گیا ہے،مہر لگ گئی ہے ، ماں تو بہر حال ماں ہوتی ہےدنیا میں ہی تو ہے جو اچھوں سے بھی پیار کرتی ہے،بُروں سے بھی پیار کرتی ہے۔اس کی نظر میں تواس کے بچے بچے ہی ہوتے ہیں،
ماں تو ان کو نہیں چھوڑ سکتی،باپ بھی کہہ دیتاہےکہ گھر سے نکل جاؤاس کو دھکادو۔مگر ماں کبھی نہیں کہتی،اس کے دل میں اللہ نے محبت رکھی ہے۔ چنانچہ ماں اس کے لیے پھر کھانا بنا کر دیتی ہے۔اُس کے لیے دروازہ کھولتی ہے،اور پھر پیار سے سمجھاتی ہے نیک بن جا،زندگی اچھی کرلے۔ اب دیکھئے اللہ کی شان کہ کئی سال برُے کاموں میں لگ کراُس نے صحت بھی تباہ کرلی اور دولت بھی تباہ کردی اس کے جسم بیماریاں پیدا ہوگئیں،ڈاکٹروں نے بیماری بھی لاعلاج بتائی۔اب اُٹھنے کی بھی سکت نہ رہی ،اور بستر پڑگیا۔اتنا کمزور ہوگیا کہ اب اس کو اخرت کا سفر سامنے نظر آنے لگا۔ماں پھر پاس بیٹھی ہوئی محبت سے سمجھا رہی ہے،میرے بیٹے!اب تو نے زندگی جو حشر کر لیا وہ تو کرلیا،اب بھی وقت ہے تو معافی مانگ لے توبہ کرلے۔اللہ گناہوں کو معاف کرنے والاہے۔
جب ماں نے پھر پیارومحبت سے سمجھایا،
اس کے دل میں کچھ اثر ہوا،کہنے لگاکہ ماں میں کیسے توبہ کروں!میں نے تو بہت بڑے بڑے گناہ کئے ہیں۔ماں نے کہابیٹا! حضرت سے پوچھ لیتے ہیں،کہاامی!میں چل کر نہیں جاسکتا،آپ اُٹھا کر لے جا نہیں سکتیں،تو میں کیسے ان تک پہنچوں؟امی!آپ ایسا کریں کہ اپ خود ہی حسن بصریؒ کے پاس جائیں اور حضرت کو بلاکرلےآئیں۔ماں نے کہا ٹھیک ہے بیٹامیں حضرت کے پاس جاتی ہوں۔بچے نے کہا کہ امی اگر اپ کے انے تک میں دنیا سے رخصت ہوجاؤں تو امی!حسن بصریؒ سے کہنا کہ میرا نمازِجنازہ وہی
چنانچہ ماں حضرت حسن بصریؒ کے پاس گئی،حضرت کھانے سے فارغ ہوۓتھے اور تھکے ہوۓ تھے اوردرس بھی دینا تھااس لئے قیلولہ کے لئے لیٹنا چاہتے تھے،ماں نے دروازہ کھٹکھٹایاپوچھا کون؟عرض کیا حضرت! میں آپ کی شاگردہ ہوں میرا بچہ آب اخری حالت میں ہےوہ توبہ کرنا چاہتاہے،لہذا آپ گھر تشریف لے چلیں اور میرے بچے کو توبہ کرادیں۔حضرت نے سوچا کہ آب وہ پھر اسکو دھوکہ دےرہا ہے،پھر وہ اسکا وقت ضائع کرےگا اور اپنا بھی کرے گا۔سالوں گزر گئے اب تک کوئی بات اثر نہ کرسکی اب کیا کرےگی،کہنے لگا میں اپنا وقت کیوں ضائع کردوں ؟ میں نہیں آتا۔ ماں نے کہاں حضرت اُس نے تو بھی کہاں کہ میرا انتقال ہوجائے تو میرا جنازہ کی نماز حضرت پڑھائیں۔حضرت نے کہا میں اُس کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھوں گااس تو کبھی نماز ہی نہیں پڑھی۔اب وہ شاگردہ بھی اُٹھی مغموم دل سے ،
ایک طرف بیٹا بیمار دوسری طرف حضرت کاانکار۔اس کا غم تو دوگناہ ہوگیا تھا۔وہ بیچاری انکھوں انسو لئے گھر واپس ائی،بچے نے ماں کو زاروقطار روتا ہوا دیکھا۔اب اس دل اور بھی موم ہوگیا،کہنے لگا امی! آپ کیوں اتنا زاروقطار رو رہی ہے؟ماں نے کہاں بیٹا ! ایک تیری یہ حالت ہے دوسری طرف حضرت نے تیرے پاس آنے سے انکار کردیا،تو اتنا بُرا کیوں ہے؟کہ وہ تیرے جنازے کی نماز بھی نہیں پڑھانا چاہتے۔ اب یہ بات بچے نے سنی تو اس کے دل پر چوٹ لگی،اس کے دل پر صدمہ ہوا، کہنے لگاامی !
مجھے مشکل سے سانسیں آرہی ہیں ،ایسا نہ ہو کہ میری سانس اُکھڑنے والی ہو لہذا میری ایک وصیت سن لیں ما ں نے پو چھا بیٹا وہ کیا ؟ کہا امی!میری وصیت یہ ہے کہ جب میری جان نکل جاۓتو سے پہلے اپنا دوپٹہ میرے گلے میں ڈالنا،میری لاش کو کتے کی طرح صحن میں گھسیٹناجس طرح مرے ہوۓ کُتے کی لاش گھسیٹی جاتی ہے۔ماں نے پوچھا بیٹا وہ کیوں؟کہا امی!وہ اسلئے کہ دنیا والوں کو پتہ چل جاۓ کہ جو اپنے رب کا نافرمان اور ماں باپ کا نافرمان ہوتا ہےاس کا انجام یہ ہوا کرتاہے اور امی !مجھے قبرستان میں دفن نہ کرنا۔ما ں نے کہابیٹا قبرستان میں دفن کیوں نہ کروں؟کہا امی !مجھے ا سی صحن میں دفن کردیناایسا نہ کہ میرے گناہوں کی وجہ سے قبرستان کے مُردوں کو تکلیف پہنچے ـ۔
جس وقت اس نوجوان نےٹوٹے دل سے عاجزی کی یہ بات کہی تو پروردگار کو اس کی یہ بات اچھی لگی،روح قبض ہوگئی ،ابھی روح نکل ہی رہی تھی اور ماں اس کی انکھیں بند کرہی تھی کہ باہر سے دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے، عورت نے اندر سے پوچھا کون ہےجس نے دروازہ کھٹکھٹایا؟ جواب آیا کہ میں حسن بصری ہوں۔ کہا حضرت ! آپ کیسے؟فرمایا جب میں نےتمہیں جواب دے دیامیں سو گیا، خواب میں اللہ رب العزت کا دیدار نصیب ہوا ،فرمایا حسن تو میرا کیسا ولی ہے؟ میرے ایک ولی کا جنازہ پڑھنے سے انکار کرتا ہے میں سمجھ گیا کہ اللہ نے تیرے بیٹے کی توبہ کو قبول کرلیا ہے، تیرے بچے کی نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے حسن
بصریؒ کھڑا ہے۔
پیارے اللہ! جب تُو اتنا کریم ہے کہ مرنے سے چند لمحہ پہلے شرمندہ ہوتا ہےتو اس کی زندگی کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے تو میرے مالک! آج ہم تیرے گھر میں بیھٹے ہوۓ ہیں، آج ہم اپنے جرم کی معافی مانگتے ہیں،خطاؤں کی معافی مانگتے ہیں ، میرے مالک ہم مجرم ہیں،ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ میرے اللہ ہم جھوٹ نہیں بول سکتے، ہماری حقیقت تیرے سامنے کھلی ہوئی ہیں ، میرے مو لیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرما،ہم سے تو گرمی کی دھوپ برداشت نہیں ہوتی اسے اللہ! جہنم کی اگ کہاں سے بداشت ہوگی۔اے پروردگار عالم! ہماری توبہ کو قبول کرلے اور باقی زندگی ایمانی،اسلامی اور قرانی
بسر کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین۔(دواۓ دل:صفحہ 87سے 91 تک)
نیوز فلیکس 06 مارچ 2021