*حالاتِ حاضرہ* *استادِ محترم آغا سید جواد نقوی* ۵ مارچ 2021 *⬅️ملکی و غیر ملکی حالات* ملکی حالات میں اسلام آباد میں جمعیتِ اسلام جو کہ مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں ہے انکے گروپ کے ایک فرد اور علاقائی ناظم کا قتل ہے۔۔انکے ساتھیوں سیمت۔ اسکا جواب دھرنے سے دیا گیا پھر حکومتی مذاکرات کے بعد اسکا اختتام ہوا ۔ خبروں میں ہے کہ قاتل پکڑا گیا ہے ۔یہ واقعہ ملکی سلامتی کیلئے بہت تشویشناک ہے دہشت گردی کی جڑیں چونکہ ابھی تک موجود ہیں اسی لئے وہ کبھی اپنے مالی مفادات کی خاطر ایسی کاروائیاں کرتے ہیں
جو بعد میں بڑے فتنے کا باعث بنتی ہیں،ہماری سیاسی اور مذہبی صورتحال ان امور کی متحمل نہیں ہے۔یہ واقعہ قابلِ مذمت ہے اس کے مجرمان کو بروقت پکڑ کر سزا دینی چاہیے تاکہ پھر اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں۔ ظاہر ہے جن جماعتوں میں یہ واقعات ہوتے ہیں۔ خود ان کے اندر ہی ایسے عوامل ہوتے ہیں جو واقعات کا رخ کسی اور سمت میں لے جاتے ہیں۔ *⬅️ڈسکہ جمہوریت اور سینٹ کے انتخابات کے اثرات* دو روز قبل نئے انتخابات ہوئے سینیٹ میں چند ممبران کی مدت چھ سال ختم ہوئی۔ اور انکے بدلے نئے نمائندے آئے۔ *✨پاکستان میں جمہوری نظام کی ترکیب* حکومت عوام کے منتخب نمائندوں سے بنتی ہے اور جو اکثریت سے جیت جاتے ہیں وہ پھر حکومت میں آ جاتے ہیں, بعض اوقات اکثریت سے نہیں جیتتے تو یہ اتحادی جماعتیں کہلاتی ہیں یہ جماعتیں چھوٹی چھوٹی اور جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا لیتی ہیں جیسے ابھی حکومت اتحادی جماعت ہے۔
*سینٹ* یہ وہ قانون ساز ادارہ ہے جو مجلس شوریٰ سے اوپر ہے اور یہ اختیاراتی ادارہ ہے سینٹ کے نمائندے پارلیمانی نمائندے انتخاب کرتے ہیں *عدلیہ*
عدلیہ عوام کے نمائندوں سے نہیں بنتی حکومتی ضابطوں کے مطابق عدالتی سربرھان معین ہوتے ہیں۔ *فوج* یہ بھی عوام کے ووٹوں سے نہیں بنتی۔ یہ مکمل ایک پارلیمانی ڈھانچہ ہے۔ سینٹ کے نمائندے قومی اور صوبائی اسمبلی کے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ عوام کے ووٹ اسکے اندر اہمیت نہیں رکھتے۔ اب سینیٹر پارٹی کے ہوں یا انفرادی یہ ووٹ خریدتے ہیں۔
ان کی خرید و فروخت سے جمہوریت ہوتی ہے جس کے پاس زیادہ پیسہ ہو منتخب ہوجاتے ہیں۔ قابل اور مخلص افراد اس کی صلاحیت نہیں رکھتے یہ ہے جمہوریت کی خرابی جس کے پاس پیسہ ہے وہ اس کے سہارے اقتدار میں آ جاتا ہے۔۔۔۔۔ سب سرمایہ لگاتے ہیں پھر اس کے بعد جب وہ اقتدار میں آ جاتے ہیں یہ سرمایہ گذاری جو ہوتی ہےانہوں نے پھر اتنا ہی پیسہ بنانا ہوتا ہے لوٹ کے ذریعے معاوضہ کے ذریعے رشوت کے ذریعے جتنا وہ خرچ کرتے ہیں پھر اتنا ہی وہ بنا بھی لیتے ہیں بلکہ دس گناہ زیادہ۔۔۔یہ کاروباری سیاست ہے ۔ حکومت کو اس بات کا خطرہ تھا کہ حکومت کے نمائندے کسی اور کو ووٹ نہ دیں اور ایسا ہی ہوا تحریک انصاف کے وزراء نے حزب مخالف کے افراد کو ووٹ دیے کل وزیر اعظم صاحب نے تلخ لہجے میں خطاب کیا اور شدید غصے میں برہم تھے اس کام پر ، سینٹ کے ایوان میں حکومت کو شکست ہوئی ہے اور اس مرتبہ اپوزیشن نے برتری حاصل کی ہے۔
اس سے بھی بہت بڑا بحران پیدا ہوا ہے اب حکومت کو یہ ضرورت پیش آئی ہے کہ اسمبلیوں سے ایک مرتبہ پھر اعتماد کا ووٹ لیں وزیراعظم نے اعلان کیا تھا مگر وہ اجلاس نہیں ہو سکا صدرمملکت نے ہفتے کو یہ اجلاس دوبارہ طلب کیا ہے۔۔ سینٹ کے الیکشن کے مطابق 16 نمائندوں نے حکومت کے خلاف ووٹ دیا۔ جو حکومت کے حق میں تھے سات مسترد ہوئے جس کے اندر خود وزیر اعظم کا بھی ووٹ تھا ۔۔۔اس طرح سے سیاسی ہلچل نیا موڑ بن گئی ہے حکومت اپوزیشن کو دباو میں رکھے ہوئے تھی اب حکومت خود دباؤ میں ہے اس لیے دوبادہ اعتماد کےلیے اجلاس طلب کیا جارہا ہے۔یہ ایک عجیب وغریب سیاست ہے۔
*ڈسکہ کے انتخابات* ڈسکہ میں اپوزیشن نے شور مچایا کہ حکومت میں الیکشن کمیشن نمائندوں کو خریدا ہوا تھا دھاندلی ہوئی اس کے نتیجے میں الیکشن ختم کر دیے گئے وہ اب دوبارہ ہونگے۔ ڈسکہ کی جمہوریت سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ یہ ایک نیا ڈرامہ شروع ہو گیا ہے۔ نئی سینیٹ کے لیے چیئرمین کا انتخاب ہو گا جس طرح پہلے والے بھی خرید وفروخت کے ذریعہ سے بنے یہ بھی ویسے ہی بنیں گے اس کو کہتے ہیں *ہاؤس ٹریڈنگ* یعنی گھوڑوں کی تجارت علامہ اقبال کی زبانی یہ گدھوں کی تجارت ہوگی ۔
*جمہوریت کے نظام کی یہ آئیڈیل حالت ہے* ????وزیراعظم صاحب الیکشن کمیشن پرسنگین الزامات لگا رہے ہیں کہ انہوں نے جمہوری نظام کو کمزور کردیا ہے ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اب خود ہی حزبِ مخالف سے اختلاف ختم کرکے ان سے شروع کر دیا ہے یعنی ایک وزیراعظم خود ادارے سے اس طرح سے کہہ رہے ہیں ان کے بقول حزب مخالف سوفیصد ڈاکو ہیں، اپوزیشن کے مطابق حکومت فاسد ہے، حکومت کے مطابق الیکشن کمیشن فاسد نظام ہے یہ *اجماع مرکب* ہے دو باتوں پر اتفاق تیسری بات کا اس کے اندر کوئی احتمال نہیں ہے۔ان سب کا اجماع ہے کہ یہ سارے حلقے فاسد ہیں اور عوام نے ان کو چنا ہے آدھے ادھر آدھے ادھر عدالیہ نے ان کو صادق و امین کہا ہے کہ جو بھی پارلیمنٹ میں آئے گا امانت دار ہوگا ابھی انہی صادق و امین لوگوں نے دو حصوں میں اجماع کر لیا ہے کہ یہ فاسد ہیں۔
صادق اور امین لوگوں کی گواہی جو کہ خود عوام نے ان کو چنا ہے تو عوام کو ان کی بات مان لینی چاہیے کہ یہ فاسد ہیں۔یہ چور ہے اور خود منتخب نمائندوں کا اس پر اتفاق رائے ہے لہذا اب عوام کو مان لینا چاہیے ایک ایسا نظام کہ جس کے بارے میں انسان حیران ہو جاتا ہے ۔ ابھی ملک کے اندر سب سے زیادہ جج کا احترام ہے یعنی کہا جاتا ہے مائی لارڈ یہ لفظ اور کسی کو نہیں کہا جاتا ہے۔۔ یہ افراد چیف جسٹس صاحب نظام کے بارے میں رائے دیتے ہیں ابھی ایک چیف جسٹس نے ایک کیس رکھا تمام ججوں کے سامنے قاضی فائز عیسیٰ صاحب
انہوں نے اس کے اندر یہ بیان دیا ہے کہ ہمیں ایسے لگتا ہے کہ ہم ایک گٹر میں زندگی گزار رہے ہیں یعنی ان کا ملکی نظام کے بارے میں یہ کہنا تھا کہ یہ ہر جگہ گندگی ہی گندگی ہے اور گندگی کے اندر جو کیڑے ہوتے ہیں یہ وہی نظر آ رہے ہیں۔یہ ان کا ملک کے نظام کے بارے میں کہنا تھا کہ ہم ایک گندی جگہ پر رہ رہے ہیں بات عوام کی ہے کہ انھوں نے ان کو منتخب کیا عدلیہ بھی جب کہ رہا ہے اس کی بات نہیں مانتے *عوام کس بات پر مطمئن ہیں؟؟؟؟؟*
وہ خود کہہ رہے ہیں ہم فاسد ہیں عدلیہ ان کو کہہ رہی ہے۔ اس کے بعد عوام کہتی ہے کہ نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو تم آمین و صادق ہو۔یہ عوام کا اطمینان قابل رشک ہے۔ *⬅️ دنیا کی سب سے اہم خبر اور چین کا سب سے بڑا اعلان* چین کے تین بڑے صدر ہیں جنہوں نے چین کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔ ابھی انکے موجودہ صدر نے یہ اعلان کیا ہے کہ :::
*ہم نے اپنے پورے ملک سے غربت کا خاتمہ کردیا ہے* یہ جو سب غربت کے خاتمے کا منصوبہ بناتے ہیں منشور بناتے ہیں، مگر آج تک ختم کر نہیں سکے۔ یہ کامیابی یعنی غربت کا خاتمہ چین نے کر دیا ہے۔ بعض ممالک امیر ہیں کویت عرب امریکہ امیر ریاستیں لیکن ان میں بھی غربت پائی جاتی ہے اور سب سے زیادہ غریب لوگ امریکہ میں پائے جاتے ہیں۔ یہ ترقی جو انہوں نے کی نابودی کی حد تک ہے سرمایہ دارانہ نظام ہے کہ جو غریب کو حق کے زندگی سے محروم کر دیتا ہے۔
انہوں نے غریبوں کا خاتمہ کیا مگر غربت کا نہیں کرسکے۔ چین سب سے بڑا آبادی والا ملک ہے اس نے یہ کام کرکے دکھا دیا اس سے بڑی بات بشریت کے لئے اور کوئی نہیں ہوسکتی جس کے وعدہ سیاسی لوگ دیتے ہیں۔ یہ دراصل چین نے عملی کیا ہے یہ وہ جنت ہے۔ جسکے خواب دیکھائے جاتے ہیں۔ ناداری یعنی کسی کے پاس اپنی بنیادی ضروریات بھی نا ہوں ۔ ہر انسان کا حق ہے کہ کم از کم اپنی بنیادی ضروریات رکھتا ہو۔ یہ کام جو چین نے کیا یہ جمہوریت کے سائے میں نہیں ہوا۔ غیرجمہوری چین ترقی کا امام بن گیا ہے صرف اپنی ایک پارٹی کے ذریعے ۔ *مشرقِ وسطیٰ کے حالات* امریکہ نے محمد بن سیلمان کو باقاعدہ طور پر سعودی صحافی کے قتل کا ذمہ دار بنا دیا ہے۔انٹرنیشنل صحافی تنظیم نے عالمی ادارے میں قتل کا کیس بھی کردیا ہے خود صحافی کی بیوی نے بھی اس کے اوپر کیس کردیا ہے سعودی عرب نے اس رپورٹ کو مسترد کیا ہے اور وہاں اسوقت شدید بے چینی ہے خود سعودی عرب مشرقِ وسطیٰ کا اہم ملک ہے۔
دوسرا یمن نے سعودی عرب پر حملوں میں تیزی کر دیی ہے۔ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جس میں یمن نے کوئی راکٹ اور میزائل سعودی عرب پر نہ مارا ہو جن میں کامیاب ترین حملے بھی ہوئے ہیں اس حوالے سے بھی سعودی عرب کے اندر کافی بے چینی پائی جاتی ہے شاہی خاندان کے اندر بھی پہلے سے بے چینی تھی اب ان کو ممکن لگ رہا ہے کہ امریکہ کی حمایت ان کو حاصل ہو۔ ایسے میں مذہبی طبقہ تماشائی بنا ہوا ہے۔ ایک خبر آئی ہے کہ ایک عالم جو انکے شکنجوں میں تھے اب انکی موت وحیات کا کوئی علم نہیں عالمی تنظیم نے اسکی بھی خبر کا مطالبہ کیا ہے۔
*⬅️ پاپ فرانسیسی کیتھولک مسیحیت کے مرکزی مذہبی رہنما کا عراق دورہ* مسیحی دنیا میں یہ ایک خوبصورتی ہے کہ ان کے اندر مرکزیت پائی جاتی ہے ان کے اندر بھی فرقے ہیں اور ان کا سب سے بڑا فرقہ کیتھولک فرقہ ہے۔ یہ اس کے بڑے رہنما ہیں۔ ان کے ایک وقت میں کئی پاپ نہیں ہوتے بلکہ ایک ہی ہوتا ہے جو سارے کلیسا اور باقی نظام کو چلا رہا ہوتا ہے۔پانچ مارچ کو تین دن کا انہوں نے بغداد نجف اور کردستان میں دورے کا اعلان کیا ہے۔اس سلسلے میں وہ آیت اللہ العظمی آغائے سیستانی سے بھی ملاقات کریں گے۔ *اس واقعہ کا مثبت پہلو* اتنا مرکزی سطح کا نظام کے سب اس کی تقلید کرتے ہیں یہ افراد مختلف ممالک کے دورے کرتے ہیں اور اب یہ عراق آنے والے ہیں ان کا ایک شیڈول ہوتا ہےمسیحت کی جمیعت بہت زیادہ ہے ان کا سب سے بڑا پیشوا مرکز ہے کہ یہ ساری دنیا میں دورہ کرتا ہے
پانچ لاکھ مسیح عراق کے اندر ہیں یہ ان کی خاطر وہاں جا رہے ہیں۔ کسی بھی مرکزی رہنما کا وہاں جانا جہاں انکے. پیروکار ہیں جوانوں کے اندر جذبوں کی تقویت کا باعث ہوتا ہے جوان نسل کی ان سے عقیدت بڑھتی ہے دین کی طرف رغبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اے کاش کے یہ سب مسلمانوں میں بھی ہوتا خصوصاً تشیع میں ہوتا کہ مرکزی شخصیات جہاں بھی ان کے پیروکار رہتے ہیں یہ وہاں جائیں کشمیر جائیں ہندوستان جائیں کم از کم جہاں پر امن ہیں وہاں ضرور جائیں ۔عراق اس وقت ناامن ترین ممالک میں سے ہیں
مرکزی پیشوا کا وہاں جانا بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے جذبوں میں اضافہ ہوتا ہے مذہبی جذبے جو شیعہ کے اندر آتش فشاں کی صورت میں ہیں یہ تو جہاں سے ان کا مرجع تقلید گزرے یہ اس جگہ کو بھی مقدس مقام دے دیں ۔خود رہبرِ معظم جب صدر مملکت تھے اور پاکستان آئے خود رہبر معظم کا فرمانا ہے کہ محشر کا منظر تھا قیامت بود۔واقعاً پاکستانی محشر برپا کر دیتے ہیں۔اس سے لوگوں کے حوصلے بڑھتے ہیں. یہ قدم بہت اہم ہے اور یہ ہونا بھی چاہئے اس سے فتنے کی مخالفت ہوتی ہے فتنے دب جاتے ہیں مسائل حل ہو جاتے ہیں اور خوبیاں پھیلنے لگتی ہیں۔۔۔ اس سے مذہب کو جو تقویت ملتی ہے اسکا اندازہ نہیں کرسکتے یہ پہلو مثبت پہلو ہے۔۔ *اس واقعہ کا پہلوِ دیگر* یہ صلح و دوستی کا شعار لے کر آرہے ہیں۔مسلمانوں کے ساتھ خصوصاً آغا سیستانی سے ملاقات اہم ایجینڈہ ہے۔یعنی تشیع کی مرکزیت سے تشیع کی مرکزیت ایران کے اندر ہے
مگر وہ ان کو پسند نہیں ہے لہذا اب انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہے کہ تشیع کی مرکزی قیادت سے ملیں۔یہ جو صورت حال ہے عراق کتنا ناامن ہے عراق کے اندر جارج بش جب آیا عراقیوں نے ان کو جوتے مارے یہ ایک ایسا ملک نہیں ہے کہ صدر امریکہ آئے جوتے کھائے بغیر جائے عراق وہ ہے جہاں ابھی آخری ایام میں مزائیل عین الاسد پر مار رہے ہیں ہر روز یہ حملہ کرتے ہیں کہ امریکہ عراق چھوڑ جائے ترکی نے ابھی عراق میں اپنی فوجیں اتاری ہوئی ہیں عراقیوں نے ان پر بھی حملہ کر کے ان کے افراد کو مار دیا یعنی عراق چپہ چپہ نا امن ملک ہے
*وہاں یہ شخص اتنا بڑا خطرہ مول لے کر کیوں جارہا ہے ؟؟؟؟* ظاہرہےحفاظت کا انتظام حکومت نے کیا ہوگا خود یورپی ممالک نے بھی مدد کی ہو گی مگر اس دورے کا سب سے بڑا فائدہ امریکہ کو ہوگا مرکزی قیادت سے ملنا بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ان کے درمیان قرارداد ہوگی مگر عراق رپورٹر نے کہا ہے کہ یہ زبانی ہوگی تحریری نہیں ہوگی یہ دورہ بہت ہی معنی خیز ہے۔ *صلح و دوستی کا شعار* دوسرے لفظوں میں عراق بہت زیادہ بحرانوں میں گزرا ہے خود✨ صدام کا بہت بڑا بحران
✨
داعش کا بہت بڑا بحران عراق کے اندر آیا بہرکیف عراق ایک ایسی سرزمین ہے جس پر صدیاں گزر جائیں گی امن قائم کرنے کے لیے اگر ابھی سے ارادہ کیا ہو تو عراق کی سرزمین پر یورپ کی پلاننگ یہ ہے کہ عراق کے اندر اسلام کو ختم کردیا جائے۔ عیسائیوں کا یہ نظریہ ہے کہ آخری جنگ جو ہوگی ظہور مسیح عیسی ع سے پہلے وہ آخری جنگ سوریا میں ہوگی اس تناظر میں انہوں نے لشکر بنایا تشیع کو ختم کرنا ان کا اہم ھدف تھا اب یہ منصوبہ تو انکا ختم ہوگیا ہے۔اب ظاہر ہے کہ یہ دستبردار تو نہیں ہیں۔ ان کا اتنا بڑا مقصد ہے کہ اس شخص کو بھیجا جائے چاہے جان بھی چلی جائے تو مسئلہ نہیں ہے۔ وہ عورت جس نے مشرق وسطیٰ کی تباہی کا منصوبہ بنایا تھا وہ ابھی بائیڈن کے ساتھ دوبارہ آنے والی ہے اس نے ایک اصطلاح بنائی تھی کہ مشرق وسطیٰ کی نئی ولادت ہو رہی ہے پیدائش کی حالت میں ماں کو درد ہوتا ہے یہ وہ درد ہے جو جھیلنا پڑے گا۔ اور جھیلنا پڑتا ہے۔۔
اس وقت تو وہ جنین نا آیا بچہ جنا نہیں ۔اب انہوں نے دوبارہ کوشش کی ہے پھر نئے سرے سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات جوڑے جائیں ۔یہ مشرق وسطیٰ میں گیم کھیلتے ہیں اور ان کی اس گیم کو کون خراب کرتا ہے کون سا ایسا کھلاڑی ہے جو ان کے ہر منصوبے کو خراب کر دیتا ہے وہ ہے ایران اور ایران کے پاس نہ میزائل کی طاقت ہے نہ دولت کی طاقت ہے اس کے پاس کیا طاقت ہے وہ ہے ولایت فقیہ اب ظاہر ہے کہ یہ طاقت مذہبی ہے اور معنوی ہے اور جو یہ کر رہے ہیں انصار اللہ، حزب اللہ ھشد الشعبی ان کی زبان میں یہ دہشت گردی ہے شدت پسندی ہے اس کے خاتمے کا نام انہوں نے صلح اور دوستی رکھا ہے۔۔
یعنی اسرائیل کے ساتھ تعلقات۔۔۔ اسرائیل جو کرنا چاہتا ہے اسے کرنا دیا جائے جب سے اسرائیل بنا ہے کسی پاپ نے اسرائیل کی مذمت کی ہے؟؟ مسلمانوں کے حق میں بات کی ہے ؟؟؟امریکہ کی دہشت گردی کی مذمت کی ہے؟؟؟ اس لیے کہ دنیا کی صلح کا نظام امریکہ چلا رہا ہے ان کو خطرہ کس سے ہے مسلمانوں سے؟؟ تشیع قائم انکے لیے خطرہ پیدا کر رہا ہے ۔۔جب یہ طبقہ چلے گا اس کو یہ قتل سے تو نہیں ختم کر سکتے شہید قاسم سلیمانی کا قتل کیا ختم نہیں کرسکے۔ انہوں نے اتنا بڑا کارڈ کیوں کھیلا ؟؟؟ اتنا بڑا خطرہ کیوں مول لیا۔ اس لئے کہ ہدف اور مقصد بہت بڑا ہے ۔ پانچ لاکھ مسیح بھی ان کو ملنے جا سکتے تھے ملین زائرین بھی تو کربلا جاتےہیں۔مگر مقصد کوئی اور ہے۔ یہ کام ہو رہا ہے ابھی۔۔۔ خدا کا مکر ان پر غالب ہے جس طرح سے آیت اللہ سیستانی نے فتویٰ دے کر داعش سے عراق کو بچایا انشاء اللہ پاپ کے عزائم کو بھی اپنی بات سے خاک میں ملا دیں گے
۔۔۔یہ جو اسرائیل کے لئے زمینہ سازی کر رہے ہیں انشاء اللہ کے امیر المومنین نے جو صلح کی تفسیر کی ہے ان کو بھی وہی پیغام دیا جائے گا یہ بہت حساس موضوع ہے کس نے اسی کو خاص اہمیت نہیں دی ۔۔ خود آغا سیستانی گھر سے باہر نہیں نکل سکتے میں تقریبا 20 سال پہلے ان کی خدمت میں شرفیاب ہوا خود ان کے بقول کہ انہوں نے کہا کہ بیس سال ہوگئے ہیں کہ میں حرم امیر المومنین میں نہیں گیا۔حرم تک انکے گھر کا پیدل راستہ ہے حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں اور خود اس شخصیت کو شہر کے اندر تحفظ نہیں ہے ابھی بھی ان پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی اتنی مشکل حالت میں یہ پاپ وہاں جا رہا ہے اس کو کون سنبھالے گا یہ اپنے ہدف کے لئے جا رہا ہے لہذا ہدف و مقصد ان کا بہت بڑا ہے ہماری خدا سے دعا ہے کہ مسلمانوں کے لیے خیر کا پہلو نکلے۔ اور شیعہ، مسلمین ،عراق مشرق وسطی کے لیے وہ ہو جس میں خدا کی رضا ہے۔ انشاء اللہ
نیوز فلیکس 06 مارچ 2021