گذشتہ کچھ دنوں سے پاک فوج کے خلاف ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے. جس میں مختلف لوگ اپنے اپنے انداز سے پاک فوج کی تذلیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ انہیں اس مہم میں دشمن ملک بھارت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے فوج کے خلاف مہم میں حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم پیش پیش ہے. جب سے اپوزیشن نے پاک فوج کو بدنام کرنے کی مہم شروع کی ہے تب سے پاکستان کے بدترین دشمن خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں.
ہمارا دشمن بھارت پاکستان کی سلامتی کی محافظ فوج کے وقار مجروح کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے. اور اس مقصد کے لئے وہ اپوزیشن جماعتوں اور لبرلز کو استعمال کر رہا ہے. پاک فوج کے خلاف مہم میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب پی ڈی ایم کے جلسے میں نواز شریف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید بوجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر کھل کر تنقید کی اور موجودہ حالات کا ذمہ دار فوج کو قرار دیا. اس طرح کے بیانات دے کر نواز شریف صاحب نے بھارت سمیت دیگر ملک دشمن طاقتوں کو خوش کرنے کی کوشش کی.وزیر اعظم عمران خان نے نجی ٹی وی کے اینکر کو بھی بتایا ہے کہ ہمارے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ میاں نواز شریف لندن میں کن کن لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں.
تاہم اب پیپلزپارٹی کی سی ای سی کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے بعد اپوزیشن کے اتحاد میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں کیونکہ پیپلزپارٹی نے سینیٹ اور ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے جس کے اب عملا اپوزیشن اتحاد ناکارہ ہو چکا ہے. اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان خود اپنی جماعت میں تنہا ہو کر رہ گئے ہیں. انکی جماعت کے اہم ارکان نے بغاوت کا اعلان کر دیا ہے اور اپنی علیحدہ شناخت کے ساتھ ملک میں سیاست کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے.اپوزیشن اتحاد والے خود سینیٹ الیکشن اور استعفوں کے معاملے میں اختلاف کا شکار ہو چکے ہیں تو اب ان کے فوج مخالف بیانیہ میں بھی کوئی جان باقی نہیں رہی اور اب انہوں نے اپنے بیانات میں بھی احتیاط کرنا شروع کر دی ہے. اور نواز شریف صاحب کی طرف سے شروع کیا جانے والا فوج مخالف بیانیہ بھی دم توڑتا جا رہا ہے.
سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ اپوزیشن والے جو حکومت کو گرانے میں ناکام ہو چکے ہیں وہ پاک فوج جیسی اہم طاقت کے ساتھ کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں؟اگر اپوزیشن نے فوج مخالف مہم کو اسی طرح جاری رکھا اور اپنی روش درست نہ کی تو عوام ان کو آئندہ ہونے والے بلدیاتی اور عام انتخابات میں مسترد کر دیں گے. پھر ان لوگوں کی مدد کے لئے کوئی بھی ملک دشمن نہیں آئے گا.لہٰذا اب حکومت کو چاہیئے کہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرے تاکہ ریاست اور فوج مخالف بیانیہ کو روکا جا سکے.
MASHALLAH
ماشاء اللہ بہت خوب
زبردست ۔بہت اچھا اور معلوماتی کالم