الیگزینڈر گراہم بیل نے ایسے 3766 میں ٹیلی فون کی ایجاد مکمل کی جس سے انسانی آواز کو بڑ کی لہروں کی مدد سے کرہ ارض کے گوشے گوشے میں پہنچانے کا انتظام ہو گیا لیکن آپ یہ سن کر یقیناً حیران ہوں گے کہ گراہم بیل کا اصل مقصد ٹیلی فون ایجاد کرنا نہ تھا بلکہ وہ اور اس کے والد بحروں اور گونگوں کی تعلیم میں لگے ہوئے تھے گراہم بیل چاہتا تھا کہ آوازوں کو حرکات میں تبدیل کر دیں تاکہ آوازیں اگر بحروں کے کانوں میں نہیں پہنچ سکتی تو آنکھوں کے ذریعے سے انہیں دکھا کر اصلی تک پہنچنے کے قابل بنا دیا جائے.
اس کام سے اس کی دلچسپی برقعی مر ہی چنانچہ جب حکومت فرانس نے ٹیلی فون کی ایجاد پر اسے پچاس ہزار تک کا انعام دیا تو اس نے یہ رقم اس تجربہ گاہ کے حوالے کر دی جو پیروں کی سہولت کے لیے نئی تدبیروں کی چھان بین میں مصروف تھی اس سے بیشتر بھی بہت سے ماجد ٹیلی فون کی ایجاد کے لیے کوششیں کر چکے تھے لیکن کسی کو پوری کامیابی حاصل نہ ہوئی تھی کہ ہم نے جس اصول پر کام کیا وہ بہت سادہ اور واضح تھا اس نے سوچا کہ باہر جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ ہوا کی لہروں کے ذریعے سے کان میں پہنچتی ہے اور کہا کہ یہ جھلی میں حرکت پیدا کر دیتی ہے یہی حرکت دماغ تک چلی جاتی ہے اور انسان اندازہ کر لیتا ہے کہ آواز کیسی ہے یا کیا کہا گیا ہے اگر بجلی جیسی دو چیزیں لے کر فاصلے پر رکھی جائے تو اور انہیں بجلی کے تار کے ذریعے سے ملا کر ایک کی آواز دوسری تک پہنچائی جائے.
تو کوئی وجہ نہیں کہ اس میں حرکت پیدا نہ ہو چنانچہ اسی اصول پر کام کرتے ہوئے اس نے لوہے کی دو پتلی سی پتھری اور اپنے تجربے میں کامیاب ہوگیا 10 مارچ 1858 سے 1947 کو گراہم بیل نے سب سے پہلے پیغام اپنے رفیق مسٹر حسن کو پہنچایا ہوا اس دن منزلہ مکان کے سب سے نچلے کمرے میں مصروف تھا ارد گرد مشینوں کی سربراہ تھیں جس میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی حالت میں گراہم بیل کی آواز گونجتی مسٹر واٹسن یہاں تشریف لائیے مجھے آپ سے کام ہے اس کے بعد ٹیلی فون کی سند ھ میں آہستہ آہستہ بے اندازہ ترقی کرلی.
نیوز فلیکس 03 مارچ 2021