پاکستان کا تجارتی خسارہ اربوں ڈالر میں ہے اور ہر سال خسارہ بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ حکومت کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے بیرونی قرضے لینے پڑتے ہیں اور پھر ان قرضوں کو واپس کرنے کے لیے مزید قرضہ لیا جاتا ہے اور اس پہ سود الگ سے دینا پڑتا ہے ۔ ملکی معیشت کا بہت برا حال ہے اور ہر روز مہنگائی اور بےروزگاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے آئیے جانتےہیں تجارتی خساره کیا ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے؟ ہر ملک کچھ ناکچھ پیدا کرتا ہے اور اسے بین القوامی منڈی میں فروخت کرکے غیرملکی زرمبادلہ کماتا ہے .
اور اسی طرح ہر ملک کچھ نا کچھ دوسرے ممالک سے منگواتا ہے اس طرح اسے ان مصنوعات پر ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ فرض کریں اگر کوئی ملک ایک ارب ڈالر کی چیزیں برآمد کرتا ہے(یعنی باہر بھیجتا ہے) اور ایک ارب ڈالر کی مصنوعات درآمد کرتا ہے(یعنی باہر سے منگواتا ہے) تو اس کا تجارتی خساره صفر ہوگا اور اسے اپنے ملکی اخراجات چلانے کے لیے بیرونی قرضہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ تجارتی خسارے سے بچنے کے لیے ہر ملک اپنی برآمدات بڑھاتا ہے اور درآمدات گھٹاتا ہے جس کی وجہ اس کی معیشت ترقی کرتی ہے اور وہ اپنے ملک کے عوام کو بہتر معیار زندگی فراہم کرنے کے قابل ہوجاتا ہے جیسا کہ کرونا بحران میں ترقی یافتہ ممالک نے اپنے عوام کو ماہانہ بےروزگاری الاونس دیا اور وہاں بوڑھوں کو پنشن ملتی ہے تعلیم مفت ہے اور میڈیکل بھی مفت ہے ۔
بدقسمتی سے پاکستان کی پیداوار ناہونے کے برابر ہے یہاں تک کہ ہمارا ملک زرعی ہونے کے باوجود گندم اور مکئی جیسی دیسی اجناس کی بنی چیزیں بھی باہر سے منگواتا ہے جیسے Lu فرانس کی کمپنی ہے جو یہاں کئی طرح کے بسکٹ بیچ رہی ہے ہماری پہچان انڈس ویلی اور پنجاب سے ہے یعنی پانیوں کی سر زمین پر بدقسمتی سے ہم نیسلے کا پانی خرید رہے جو ایک غیرملکی کمپنی ہمارا ہی پانی ہمیں ہماری نااہلی کی وجہ سے مہنگے داموں بیچ رہی ہے۔
اگر سوراخ والا برتن پانی کی ٹوٹی کے نیچے رکھ دیا جائے تو جب تک سوراخ بند نہیں ہوں گے برتن کبھی نہیں بھرے گا اوپر سے بھرتے جاو گے اور سوراخ سے پانی نکلتا رہے گا۔ یہی ہماری معیشت کی حالت ہے جس سے موبائل کمپنیاں ،کھانے پینے کی اشیاء بیچنے والی کمپنیاں اور الیکٹرانکس اشیاء بنانے والی کمپنیاں ایسے ہی ہماری معیشت سے پیسہ نکال کراپنے ملکوں کو لے کرجاتی رہیں گی ۔ اس کے علاوہ ہمارے غیرپیداواری اخراجات پیداواری اخراجات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں اگر حکومت پاکستان چاہتی ہے کہ یہاں کی معیشت مستحکم ہو تو اس کےلیے اسے گھریلو صنعت کو فروغ دینا ہوگا اور کم سے کم غیرملکی مصنوعات باہر سے منگوانی ہوں گی باقی کھانے پینے کی اشیاء اور عام ضروریات زندگی کی چیزیں جیسے صابن سرف وغیرہ سے لے کر مصالحہ جات وغیرہ کی پیداوار بڑھانی ہوگی۔ چند سالوں بعد ہی ہم ترقی یافتہ ملک بن سکتے ہیں اس کے علاوہ بیرونی قرضوں سے بھی چھٹکارہ مل سکتا ہے یہ سب ہوسکتا ہے جس کے لیے پاکستانی بنو پاکستانی چیزیں خریدو پرعمل کرنا ہوگا.