نبی کریم (صلی اللہ علیۂ وسلم) اوصاف حمیدہ کے مالک تھے، برداشت، صلہ رحمی، عفو و درگزر،شفقت، محبت، شائستگی، انکسار، علم، غیرت، حیاء، ادب، اخلاق، پاکیزگی غرض کہ ہر وصف میں آپ (صلی اللہ علیۂ وسلم)
اوج کمال پر جلوہ گر نظرآتے ہیں- صفائی و پاکیزگی سے اتنی محبت کہ طہارت کو نصف ایمان قرار دیا، نفاست و شائستگی اتنی کہ مسجد میں بدبو دار چیزیں جیسے لہسن و پیاز کھا کرآنے سے منع کر دیا اور اپنی ظاہری حیات مبارکہ کے وقت آخر میں بھی مسواک کرکے صفائی و شائستگی کی اہمیت سے امت کو اگاہ فرمایا- عطر اور خوشبو خوشبو پسند فرمایا- مظلوموں اور بےکسوں کی داد رسی فرماتے، بوڑھوں و کمزوروں کو آپۖ کا سہارا تھا- عفوو درگزر ایسا کہ فتح مکہ کے وقت، جن لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیۂ وسلم) کو ستایا تھا، گھر وطن چھوڑنے پر مجبور کیا تھا، طرح طرح کے ظلم و جبر آپۖ او اصحاب پر کئے تھے ان کے لئے عام معافی کا اعلان کردیا- اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہم جان جائیں گے کہ ہم سیرت رسول (صلی اللہ علیۂ وسلم)سے کوسوں دور نکل آے ہیں-
صفائی کے ناقص انتظام، ھمارے شہر گلیاں، گندگی، کچرے سے اٹی ہوئی، گندگی چارسو پھیلی ہوئی، روزانہ خبروں میں گندگی بارے ہیڈلائنز سننے کو ملتی ہیں کیا ہمارا چلن یہی ہونا چاہیے؟ یتیم،کمزور اور بےکس افراد کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں دردر کی ٹھوکریں کھا کر بھی اپنا حق حاصل نہیں کر پارہے- ہم نے سیرت پاک (صلی اللہ علیۂ وسلم)سے کیا سیکھا ہے؟ ہمارا سیرت پاک سے کیا تعلق رہ گیا؟ سیرت پاک نے برداشت و معاف کرنے کا سبق سکھایا فتح مکہ سے بڑی کیا مثال ہوگی- اس سے اعلی برداشت کی مثال ہمیں کہاں ملے- لیکن ہم کہاں کسی کو معاف کرتے ہیں دشمنی تو چھوڑیے اگر سڑک پر آیکسیڈنٹ ہوجانے تو اس کے بعد ہم ایک دوسرے کو مارنے پر تل جاتے ہیں، حالانکہ آکسیڈنٹ کوئی بھی ارادے سے نہیں کرتا بلکہ یہ ایک غیرارادی فعل ہے جو سرزد ہو جاتا ہے- ہم اس بات سے واقف بھی ہیں اس کے باوجود ایسا واقع ہوجاتے تو وہ تماشا ہم لگاتے ہیں کہ بات چھوڑ دیں- منٹگمری واٹ نے کہا تھا کہ:
” پغمبراسلام (صلی اللہ علیۂ وسلم)کی پالیسی یہ تھی کہ لوگوں کے دل جیتے،نہ کہ انہیں توڑا جاۓ” – لکین ہم اس بات کے الٹ جارہے ہیں.