جہاں تک مغرب کی فکری و تہذیبی شناخت کے دوسرے عنصر کا تعلق ہے یعنی اسکا رومن پس منظر تو تاریخ سے با خبر لوگوں کے لئے” روم” دنیا کی ایسی قدیم ترین داستان کا نام ہے جس کو دنیا اب جا کر “استعمار” کے نام سے تعبیر کرنے لگی ہے دوسری قوموں کو اپنے زیر نگین لا کر رکھنا اور ان کو ہر گز نہ اٹھنے دینا انکے وسائل انکی افواج ان کے جواں گھبرو انکے کھیت کھلیان انکے حکمران اور انکے لیڈر سب کو اپنے یہاں گروی رکھنا انکو اپنے تاج و تخت کا خدمتگار بنا کر رکھنا بلکہ اس عمل کو ایک منظم ادارے کی صورت دے رکھنا یہ دنیا کے اندر روم ہی کی متعارف کردہ سوغات ہے۔
اس سے پہلے قومیں تاراج ہوتی رہیں مگر کالونیاں نہ بنائی گئیں مہزب دنیا کے اندر یہ روم ہی کی متعارف کردہ خباثت ہے اس استعماری عمل میں دنیا کے اندر اگر کوئی دس بارہ صدیوں کا تعطل آیا رہا تو تو اسکی وجہ انکی نیکی نہیں بے بسی تھی کیوں کہ دنیا کا ایک بڑا حصّہ اس دوران امّت محمدیہؐ کے زیر نگین آ گیا تھا جسکے باعث یہ توحید کا گہوارہ بن گیا تھا اور عدل و انصاف اور امن کی قلمرو آپ ہنسیں گے یہی وہ دور ہے جو اقوام روم کی تاریخ میں دورہائے تاریک کے نام سے جانا جاتا ہے۔البتہ اس امت کے اپنے فرض سے غافل پڑنے کی دیر تھی کہ وارثان روم دنیا کے ایک بڑے حصّے کو تیسری دنیا میں تبدیل کر دینے کیلئے پھر اس پر چڑ دوڑے اور آج تک اس میں ادھم مچاتے پھر رہے ہیں۔
دنیا میں افراد کو غلام بنائے رکھنے کا رواج تو واقعی بہت پرانا ہے اور شاید ہر جگہ رائج رہا ہے مگر قوموں کی قومیں غلام بنا رکھنا ایک باقائدہ نظام کی صورت میں اس بڑی سطح پر رومن ایمپائر ہی کی یادگار ہے خواہ وہ عیسایت قبول کرنے سے پہلے ہو یا بعد میں یہ یادگار آزادی کے مجسمے کی جگہ نصب کرنے والی ان اقوام کو آج بھی بہت عزیز ہے۔
نوٹ: اگر آپ بھی نیوز فلیکس پر آرٹیکل لکھ رہے ہیں اور ویوز لینا چاہ رہے ہیں تو ہمارے واٹس اپپ گروپ کو جوائن کریں اور اپنی آمدنی میں اضافہ کریں گروپ جوائن کرنے کے لئیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔
https://chat.whatsapp.com/LbFhamdT6T2IbayXDMpN4j
تحریر:: ملک جوہر