سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا پہرےدار
اسلام کا مجاہد اعظم، اسلام کی صلیبی جنگوں کا ہیرو، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ جس پر اسلام کو صدیوں بعد آج بھی ناز ہے، اس عظیم سپہ سالار کے دور حکومت میں ایک دفعہ مسلمانوں کا قافلہ شام سے مصر کی طرف روانہ تھا کہ اسی دوران ایک صلیبی جرنیل بُرنُس نے مسلمانوں کے قافلے پر حملہ کر دیا، مسلمان نہتے تھے، اس لئے بڑبڑا اٹھے، اسی اثناء میں بُرنُس کہہ اٹھا اور طنز کیا کہ تم مسلمان جو کہتے ہو کہ تمہارے نبی تمہارے مددگار ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر ہیں اور تمہاری ہر چیز کو دیکھ رہے ہیں تو بلاؤ محمد کو تمہاری مدد کرے (نعوذ باللہ)-
اسکے یہ لفظ کہنے کی دیر تھی کہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ تک یہ لفظ پہنچے، اور وہ اسی غم میں بیمار ہو گۓ اور دو منتیں مانیں کہ یااللہ مجھے تب تک موت نہ دینا جب تک میں بیت المقدس صلیبیوں سے واپس نہ لے لوں، پھر چاہے اس کے لیۓ مجھے اپنی ساری سلطنت ہی کیوں نہ لٹانی پڑے اور سارے خزانے ہی کیوں نہ صرف کرنے پڑیں- اور دوسری منت یہ مانی کہ یااللہ مجھے تب تک موت نہ دینا جب تک میں بُرنُس کو اپنے ہاتھ سے قتل نہ کر دوں-
اس کے بعد اللہ نے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کو صحت عطا فرما دی اور وہ دو سال تک اسی انتظار میں رہے کہ کب بُرنُس اُن کے قابو آئے اور وہ اس گستاخی کا بدلہ لیں- اس کے بعد اللہ نے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کوبیت المقدس کی فتح عطا فرمائی- اور بیت المقدس فتح ہونے کے بعد نے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے تمام صلیبی جرنیلوں کو معافی دے دی- مگر بُرنُس کے سامنے آنے پرسلطان صلاح الدین ایوبیؒ آگ بگولہ ہو گۓ اور تلوار ہاتھ میں تھام کر کھڑے ہو کر فرمایا کہ وہ تم تھے جس نے کہا تھا بلاؤ محمد کو، ہاں ہاں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیجھا ہے اب بات کرکیا کرنی ہے،
پھرسلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے اس گستاخ کو اپنے ہاتھ سے کاٹا اور اس کا سر جتنے بھی صلیبی جرنیل تھے ان کے خیموں میں بیجھا، اور انہیں بتایا کہ تم لوگوں کو معافی اس لیۓ دی گئی کیونکہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سب کو معاف فرما دیا تھا لیکن گستاخ جو اس دن خانہ کعبہ کے غلاف سے لٹکا ہوا تھا اسے وہیں قتل کرنے کا حکم دیا تھا-تو یہ تھی وہ غیرت جسکی آج ہر مسلمان کو ضرورت ہے-