موطا امام مالک کی شرح٫٫زرقانی،،میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ کہ مدینہ منورہ کے گرد و نواح میں ایک خاتون کا انتقال ہوا۔چند خواتین اسے نہلانے لگیں،ایک خاتون غسل دینے کے دوران یہ کہہ بیٹھی کہ اس (مردہ) خاتون کے فلاں فلاں شخص سے تعلقات تھے۔اللہ تعالی کی طرف سے ایسی پکڑ ہوئی کہ غسل دینے والی کا ہاتھ دوران غسل مردہ خاتون کی ران کے ساتھ چپک گیا۔
چھڑانے سے بھی ہاتھ نہیں چھوٹا،غسل میں دیر ہوگئی،مردوں کو پتہ چلا،مگر کوئی حل نہ نکلا۔ایک عالم سے پوچھا اس نے کہا ہاتھ کاٹنا پڑے گا مگر اس عورت کے رشتہ دار نہ مانے۔دوسرے عالم سے پوچھا اس نے کہا میت کی ران کا حصہ کاٹنا پڑے گا۔مگر میت کے ورثاء نہ مانے۔
اس وقت کے بڑے عالم فقیہہ مجتہد حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو بلایا گیا۔آپ تشریف لائے اور غسل دینے والی سےپردہ میں پوچھا کہ تو نے کوئی بات تو نہیں کی تھی۔وہ کہنے لگی کہ میں نے اور کچھ تو نہیں کہا صرف یہ جملہ میرے منہ سے نکل گیا کہ٫٫اس کے فلاں فلاں سے تعلقات تھے،،حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا چار گواہ ہیں؟کہنے لگی نہیں۔
پھر حضرت امام مالک رحمہ اللّٰہ نے پوچھاکہ میت خاتون نے ان تعلقات کا اقرار تم سے کیا تھا؟کہنے لگی نہیں۔پھر فرمانے لگے کہ اس کا قرآنی حل یہ ہے کہ اس کو اسی کوڑے لگائے جائیں کیوں کہ اس نے تہمت لگائی ہے۔
چنانچہ جلادوں کو بلایا گیا،آخری کوڑے تک ہاتھ نہ چھوٹا،جب اسی کوڑے مکمل لگ گئے تو یکدم ہاتھ چھوٹ گیا۔پھر حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس خاتون سے پوچھا کہ تو نے کس وجہ سے ایسی بات کہی؟کہنے لگی ایک دفعہ یہ خاتون فلاں کے گھر کے سامنے سے پانی بھر کر گزر رہی تھی۔اندازہ لگائیں کہ ایک جملہ اور ذرا سی بات کی وجہ سے کس قدر عبرتناک انجام ہو جایا کرتا ہے۔
کسی پر بہتان لگانا اللہ تعالی اس کے رسول اور ملائکہ مقربین کی ناراضگی کا سبب ہے۔لوگوں پر بہتان لگانے والے کو معاشرے میں ناپسندیدہ اور بے وقعت سمجھا جاتا ہے۔