دنیا کی تاریخ میں لاکھوں نامور لوگ پیدا ہوے جنہوں نے آدم کے بیٹوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ان میں حکماء اور فلاسفر بھی تھے فاتح اور کشور کشا بھی تھے صف شکن بہادر اور پہلون بھی تھے خطباء اور شعراء بھی تھے دولت اور خزانوں کے مالک بھی تھے حسن و جمال کی سلطنت کے بے تاج بادشاہ بھی تھے۔
مقدونیہ کا سکندر ہو یا روم کا سیزر ہو ایران کا دارا ہو یا یورپ کا نپولین ہو یونان کا سقراط اور افلاطون ہو یا مصر کا فرعون اور قارون ہو ان سب نے اپنے اپنے طریقوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا انکے قصیدے بھی کہے گئے ان سے محبت بھی کی گئی اور ان میں سے بعض کے سامنے سجدے بھی کیے گئے۔
لیکن سچ سچ بتائیں کہ ان میں سے کون ایسا ہے جس کی زندگی ساری انسانیت کے لئے نمونہ بن سکے کیا سقراط افلاطون اور ارسطو کی ہر شعبہ زندگی میں تقلید کی جا سکتی ہے کیا فرعون اور قارون کو مقتدر اور رہنما بنایا جا سکتا ہے یقیناً اپکا دل پوری طرح سے جواب دے گا ہر گز نہیں ان لوگوں کی شہرت اپنی جگہ لیکن ذاتی شہرت اور بعض کمالات کے باوجود انہیں نوانسانی کے لئے آئیڈیل نہیں بنایا جا سکتا۔
اسکے باوجود آپ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے دنیا میں جہاں کہیں بھی نیکی کی روشنی ہے اچھائی کا نور ہے اخلاق کی خوشبو ہے تو یہ فلسفیوں کے فلسفانہ افکار کی وجہ سے نہیں یہ امرؤالتعیس اور ہومر کے اشعار کی وجہ سے نہیں یہ سکندر اور نپولین کی کشور کشائی کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ ان بزرگوں کی تعلیم کا نتیجہ ہے جنہیں ہم انبیاء کرام کے نام سے جانتے ہیں۔
پہاڑوں کے غار میں جنگلوں کے جھنڈ میں اور شہروں کی آبادیوں میں جہاں بھی نیک اعمال اور اچھے اخلاق کا سراغ ملتا ہے وہ اسی ربانی جماعت کے کسی نہ کسی فرد کی دعوت کا اثر ہے انبیاء کی حکومت جسموں پر نہیں بلکہ دلوں پر تھی بادشاہوں کا آج کوئی نام لیوا نہیں لیکن انبیاء کرام کا نام آج بھی باقی ہے۔
نمرود اور اسکا تاج و تخت خاک میں مل چکا مگر حضرت ابراھیم کی تعلیم آج بھی موجود ہے فرعوں اور قارون کا رعب و دبدبہ قصّہ پارینہ بن گیا مگر حضرت موسیٰ کے جلال کے آثار آج بھی زندہ ہیں رومن لامعدوم ہو چکے مگر حضرت عیسٰی کی تعلیمات آج بھی زندہ ہیں۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ حکماء نے چیزوں کے خوائص ظاہر کیے طبیبوں نے بیماریوں کے نسخے ترتیب دیے مہندسوں نے عمارتوں کا فن نکالا صناعوں نے ہنر پیدا کیے اور ان سب کی کوششوں سے دنیا تکمیل کو پہنچی اور اسی لئے ہم ان سب کے شکر گزار ہیں۔
مگر ہمارے اوپر سب سے زیادہ احسانات ان بزرگوں کے ہیں جنہوں نے ہماری اندرونی دنیا کو آباد کیا جنہوں نے ہماری روحانی بیماریوں کے نسخے ترتیب دیئے جنہوں نے خالق اور مخلوق کا رشتہ مضبوط کیا یہ دنیا شاعروں فلسفیوں اور حکیموں کے بغیر باقی رہ سکتی ہے لیکن انبیاء کی تعلیمات کے بغیر یہ دنیا قائم نہیں رہ سکتی نبوت انسانیت کی اولین ضرورت ہے۔
اللّه ہم سب کا حامی و ناصر ہو::
تحریر:: ملک جوہر