جمہوریہ چین قیامِ پاکستان کے بعد معرض وجود میں آیا، پاکستان پہلا اسلامی ملک تھا جس نے کمیونزم کی خلاف ہونے کے باوجود فوراً چین کو تسلیم کیا تھا،
پاکستان نے اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے میں بھی چین کا مکمل ساتھ دیا، چین کے ابتدائی دور میں جب کوریا کے ساتھ اس کی جنگ چھڑ گئی اور مغربی ممالک نے اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کر کے چین سے تجارتی قطح تعلق کروانا چاہا تو پاکستان نے اس کردار کے حق میں ووٹ دینے سے انکار کردیا۔ اقوام متحدہ نے پاکستان سے کوریا میں فوج بھیجنے کا مطالبہ بھی کیا مگر اس سے بھی پاکستان نے صاف انکار کر دیا،
اس کے علاوہ پاکستان نے تبت کے مسئلے کو بھی چین کا اندرونی مسئلہ قرار دے کر چین کے موقف کی تائید کی جس سے چین کو ایک بڑی سفارتی حمایت ملی،
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مشکل دور اس وقت شروع ہوا جب وہ مغربی ممالک کی تنظیم سیٹو کا رکن بنا۔ سیٹوں کی رکنیت کا واضح مطلب تھا کہ اب باقی رکن ممالک کی آواز میں آواز ملا کر چین کی مخالفت کرنی ہوگی۔ لیکن پاکستان نے چین سے اپنے تعلقات منقطع نہ کی اور ہر معاملے میں اس کی اخلاقی اور سفارتی مدد جاری رکھیں، 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دنوں میں چین نے دوستی کا حق نے بنایا اور پاکستان کی مدد کی کی،
اس کے ساتھ ہی چین نے بھارتی سرحد پر اپنی افواج بڑھانا شروع کی جس کی وجہ سے بھارت کو بھی چینی سرحد پر فوجیں بھیجنا پڑی۔ اس پاک بھارت جنگ کے بعد چین نے پاکستان کی فوجی امداد میں بھی اضافہ کردیا،
پاکستان میں اسلحہ ساز” واہ فیکٹری اور ٹیکسلا کا صنعتی ادارہ پاک چین دوستی کے منہ بولتا ثبوت ہیں۔ چین پاکستان کے ساتھ خشکی کے راستے منسلک ہونے کے لیے شاہراہ قراقرم کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا ہے،
چین نے چشمہ ایٹمی پاور پلانٹ۔ بلوچستان کی ساحلی شاہراہ گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور گوادر سے کاشغر تک اقتصادی راہداری جیسے عظیم منصوبوں میں پاکستان کی مدد کر کے ثابت کر دیا ہے کہ چین دوستی لازوال ہے،
پاکستان نے چین کے ساتھ مشترکہ طور پر جے ایف 17 تھنڈر نامی جنگی طیارہ بنائیں جن کو امریکی ایف 16 طیاروں کا ہم پلہ قرار دیا جاتا ہے،
1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پوری دنیا میں پاکستان سے قطع تعلق کرنا چاہتا تو چین نے سلامتی کونسل میں پابندیاں لگانے کی قرارداد ویٹو کر دی،
پاکستان اور چین کے درمیان پراعتماد تجارتی تعلقات قائم ہیں پاکستان کے انتہائی جدید دفاعی اداروں میں سیکڑوں چینی ماہرین کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں،
چین اپنی ہنرمند آبادی۔ مضبوط معیشت اور جدید فوجی قوت کے باعث ایک ابھرتی ہوئی عالمی اقتصادی طاقت ہے، پچھلے چند سالوں میں چین کی بین الاقوامی تجارت میں 29.5 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس کے زرمبادلہ کے ذخائر 1 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں،
بین الاقوامی مسائل کے حل میں اب عالمی طاقتیں جن کے اثرورسوخ اور موقف کو تسلیم کرنے لگی ہیں،
چین اپنی تجارت اور معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف ملکوں سے دفاعی اور اقتصادی معاہدے کر رہا ہے، شنگھائی تعاون کی تنظیم اور گوادر تا کاشغر اقتصادی راہداری اس سلسلے کی ایک کڑی ہے،
جنوبی ایشیا۔ وسطیٰ ایشیا اور مشرقی وسطیٰ میں اقتصادی اور سیاسی بلاک بنانے کے لیے چین کی کوششیں جاری ہے،
پیارے ناظرین ہم آپ کے لیے مفید سے مفید اور بہترین سے بہترین معیار کے تحریریں لکھنے کی کوشش کرتے ہیں،
شکریہ۔۔۔۔۔۔