یہ دور دار حقیقت فتنوں کا دور ہے ہر طرف فتنے ہی فتنے ہیں شیطان نے اتنے جال بچھا رکھے ہیں ان سے بچ کر نکلنا بہت مشکل ہے اس زمانے میں ایمان پر قائم رہنے والا واقعی بہت بڑا مجاہد ہوگا آپ خود سوچیں جب ہر طرف عریانیت ہو شاہراہوں پر فحاشی اور بے حیائی ہو ہر طرف گندگی ہو فحاش منظر ہوں تو بے حیائی کے اس سیلاب میں اگر کوئی شخص اپنا ایمان بچا لے تو اسے مجاہد نہیں تو اور کیا کہا جائے ہمیں روز مرہ زندگی میں بہت سے برائیوں سے لڑنا پڑتا ہے
معاشرتی برائیوں سے لڑنا
خاندان اور قبیلے سے لڑنا
اپنے نفس اور خواحشات سے لڑنا
فحاشی اور بےحیائی کو فروغ دینے میں سب سے اہم کردار فلموں اور ڈراموں کا ہے چھوٹے چھوٹے بچے اور نوجوان جو کچھ فلموں میں دیکھتے ہیں وہی کچھ اسی انداز میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
برطانیہ میں ایک سروے کیا گیا اور اسکی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک بچہ سولہ سال کی عمر تک مختلف پروگرموں میں قتل کی تقریباً پچاس ہزار وارداتیں دیکھ چکا ہوتا ہے آپ خود سوچیں جو بچہ سولہ سال کی عمر میں قتل کی پچاس ہزار وارداتیں دیکھ لے اسکے ذہن میں قتل اور مار دھاڑ کا تصور راسخ نہیں ہوگا تو کیا ہوگا کتنے ہی ایسے مجرم پکڑے جاتے ہیں جو بتاتے ہیں کے ہم نے یہ منصوبہ فلاں فلم دیکھنے کے بعد بنایا۔
ان فلموں اور ڈراموں سے ضائع تو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا وقت ضائع ہوتا ہے صحت ضائع ہوتی ہے شرم و حیا ضائح ہوتی ہے اگر اتنا کچھ ضائعح ہونے کے باوجود بھی ہم ان چیزوں میں دلچسپی لیتے ہیں تو یہ بڑے خسارے کی بات ہے یہ دنیا کا بھی خسارہ ہے اور آخرت کا بھی خسارہ ہے۔
میں التجا کرتا ہوں معزز والدین سے کہ یہ فلمیں ڈرامے دکھا دکھا کر اپنی اولاد کو تباہ نا کریں۔
اللّه ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
تحریر:: ملک جوہر