انسان کو ایک معاشرتی جانور بھی کہا جاتا ہے ۔انسان مل جل کر گروہ، محلہ، کالونی، گاؤں، قصبہ یا شہر کی صورت میں آباد کاری کر کے ایک معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔ایک معاشرے کے اندر رہتے ہوئے معاشرتی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے، رشتے داری، ملازمت، کاروباری معاملات اور سیاحت وغیرہ کی غرض سے لوگ مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہیں۔
زمانہ قدیم کی بات کی جائے تو تب آمد و رفت کے ذرائع بہت محدود تھے گاڑیوں اور پکی سڑکوں کا کوئی تصور نہیں تھا لوگ زیادہ تر پیدل ہی دور دراز کے مقامات حتی’ کے ایک ملک سے دوسرے تک سفر کیا کرتےتھے۔پھر آہستہ آہستہ پالتو جانور گھوڑا، اونٹ، بیل وغیرہ کو بطور سواری استعمال کیا جانے لگا، کچھ اور وقت گزرا تو گھوڑوں کے ساتھ چھکڑوں کو باندھ کے اس سہولت کو مزید بہتر بنایا۔پہیے کی ایجاد کے ساتھ ہی دنیا میں ایک بہت بڑی تبدیلی رونما ہوتی اور ماہرین نے مختلف قسم کی چھوٹی بڑی گاڑیاں بنا کے پہیےکی مدد سے آمد و رفت کو فعال بنا لیا ۔وقت کے ساتھ ساتھ پہیوں کی شکل اور ہیت میں تبدیلی ہوتی گئی اور چھوٹی سے چھوٹی گاڑی سے لے کر ہوائی جہاز تک ہر جگہ ٹائر نے زندگی آسان بنا دی ۔
پاکستان میں اندرون اور بیرون ملک سفر کرنے کے مختلف ذرائع آمدو رفت استعمال کیے جارہے ہیں جن میں موٹر سائیکل، کار، بس، وین، ٹرین، بحری جہاز اور ہوائی جہاز وغیرہ تک شامل ہیں۔اندرون ملک عوامی سطح پر سفر کے لیے زیادہ تر بسیں اور لمبے سفر کے لیے ٹرین اور ہوائی جہاز کا استعمال عام ہے۔پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں بسوں اور دوسری گاڑیوں کے اڈے ہیں جہاں ایک خاص شیڈول کے ساتھ گاڑی ایک شہر سے دوسرے شہر 24گھنٹے آتی جاتی ہیں۔اکنامی، اے سی کلاس اور بزنس کلاس بسوں کے ساتھ ساتھ کچھ شہروں میں باقاعدہ طور پہ حکومت کی قائم کردہ میٹرو بس سروس بھی ارزاں نرخوں پر عوامی سطح پر دستیاب ہے جن میں لاہور شہر سرِفہرست اس کے علاوہ راولپنڈی، ملتان پشاور میں بھی یہ سروس فعال ہے اورباقی دیگر شہروں میں اس منصوبےپہ کام چل رہا ہے۔بسوں اور دوسری گاڑیوں کی آمدو رفت کے لیے پورے ملک میں سڑکوں کا ایک وسیع جال پھیلا ہوا ہے جو دیہاتوں، قصبوں، شہروں، اور صوبوں کو ایک مربوط نظام کے تحت ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔پاکستان میں کوہستان، ڈائیو، فیصل موور، سکائی ویز، عادل شاہ، شبیر برادرز، بلوچ، نیوچوہدری، راجہ اور چیمہ بس سروس جیسی ٹرانسپورٹ کمپنیاں قابلِ ذکر ہیں۔
پاکستان ریلوے کا نظام ایک منظم قسم کا نظام ہے جو تقریباً پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے ۔ریلوے ایک حکومتی سرپرستی کا ادارہ ہے جو پورے ملک میں مسافر اور مال بردار ٹرینوں کی آمد و رفت کو کنٹرول کرتا ہے۔1947 سے 1961 تک اسے شمال مغربی ریلوے اور 1961 سے 1974 تک پاکستان مغربی ریلوے کہا جاتا تھا۔پاکستان ریلوے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہمیت کا حامل ہے۔یہ اندرون ملک سامان کی ترسیل اور مسافروں کی آمد و رفت کا بہترین اور سستا ذریعہ ہے۔پاکستان کی زیادہ تر عوام اسی پر انحصار کرتی ہے ریلوے کے بڑے بڑےٹریک جو کراچی سے روہڑی، بہاولپور، ملتان، فیصل آباد، لاہور، راولپنڈی، اٹک پشاور اس کے علاوہ کراچی سے خانیوال، ساہیوال لاہور اور نارووال، کوئٹہ سے جیکب آباد ، شکارپور، سکھر، رحیمیارخاں، ٹوبہ ٹیک سنگھ، وزیرآباد وغیرہ اور دیگر کئی چھوٹے بڑے شہروں کو آپس میں ملاتے ہیں۔
کراچی چھاونی سے پشاور چھاونی تک کی ریلوے کی لائن جسے ایم ایل ون بھی کہتے ہیں کی لمبائی 1687 کلومیٹر ہے اور اس پر 184 چھوٹے بڑے ریلوے اسٹیشن موجود ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتنی زیادہ تعداد میں لوگوں کو سفری سہولیات میسر کرتا ہے۔ملت، قراقرم، تیزگام، شاہ حسین، رحمان بابا، جعفر، اکبر، فرید، پاکستان، کراچی، شالیمار اورسرسید ایکسپریس جیسی ٹرینیں قابلِ ذکر ہیں۔
پاکستان میں ہوائی اڈے بھی موجود ہیں جن میں جناح انٹرنیشنل ائیر پورٹ کراچی، علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ لاہور، اسلام آباد، ملتان، فیصل آباد، سکھر، پشاور، کوئٹہ، سیالکوٹ وغیرہ کے ہوائی اڈے شامل ہیں۔جہاں اندرون ملک اور بیرون ممالک کو پروازیں 24 گھنٹے بلاتعطل جاری رہتی ہیں۔PIA پاکستان کی قومی ائیر لائن ہے اس کے علاوہ نجی اور بین الاقوامی ہوائی کمپنیاں پاکستان سے ہوائی آپریشن سرانجام دیتی ہیں۔اوپر بیان کردہ تمام زرائع پاکستان میں سفری سہولیات کے لیے رائج ہیں جنہیں حکومت، کمپنیاں اور ٹرانسپورٹ مالکان ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کے لیے بہتر سے بہترین بنا رہے ہیں۔
اچھی تحریر ہے جناب
بہت شکریہ
Good
bht achi tehreer ماشاالله
بہت شکریہ…
اچھی تحریر لکھی ہے
Good effort imsal????????????
زبردست یار ایک ہی تحریر میں سائیکل سے لیکر جہاز تک کا سفر کروا دیا