حدیث شریف کی کتابوں میں خاص طور پر (بخآری شریف) میں اس واقع کا ذکر ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ کے لئے تشریف لے گئے۔تو بیویوں کے لئے قرعہ ڈالا کے کس کو ساتھ لے کر جائیں تو امہات المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کا نام نکلا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوگئیں۔
غزوہ سے فارغ ہونے تو مدینہ منورہ جاتے ہوئے ایک رات واقع پیش آیا۔۔ قافلہ تھوڑا آرام کرنے کے لئے ایک جگہ ٹہھرا ۔تھوڑے آرام کے بعد اعلان کیا گیا کہ قافلہ روانہ ہونے والا ہے تاکہ لوگ اپنی ضروریات سے فارغ ہو جائیں۔حضرت عائشہ قضائے حاجت کے لیے جنگل کی طرف گئ ہوئی تھیں۔وہاں ان کے گلے کا ہار گر گیا۔جب واپس آئیں تو ہار نہ پاکر واپس ڈھونڈنے اسی جگہ چلی گئیں ہار ڈھونڈنے میں دیر لگ گئی جب واپس آئیں تو قافلہ روانہ ہو چکاتھا معمول کے مطابق حضرت عائشہ کو ہودج میں سوار سمجھ کر ہودج کو اونٹ پر رکھ دیا جبکہ ہودج خالی تھا ( ہودج ایک ڈولی ہوتی ہے ) کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ بہت دبلی پتلی نازک تھیں اس لئے ہودج اٹھاتے ہوئے وزن کا پتہ نہیں چلا۔جب عائشہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو قافلے کے جانے کا علم ہوا تو آپ ادھر ادھر جانے کے بجائے وہیں چادر اوڑھ کر لیٹ گئیں۔
قافلے کے پیچھے آنے کے لئے صفوان بن معطل کو مقرر کیا گیا تھا تاکہ کچھ سامان رہ جائے تو سنبھال کے رکھ لیں۔
جب صفوان بن معطل نے حضرت عائشہ کو دیکھا تو (ان للہ واناالیہ راجعون)پڑھا۔ان کی آواز سے آپ اٹھ گئیں اور فوراً اپنا چہرہ ڈھانپ لیااور کوئی بات نہ کی۔اسکے بعد حضرت صفوان اپنی اونٹنی لائے اور آپکے سامنے بٹھا دیا ور پشت پیھر کر کھڑے ہو گئے پھر آپ اس پر سوار ہو گئیں اسکے بعد صفوان اونٹ کی نکیل پکڑ کر آگے آگے چلتے رہے اور قافلے کے پاس آ گئے۔ بس پھر کچھ لوگوں نے ان کو دیکھ کر تہمت لگانا شروع کر دی۔جب لشکر مدینہ پہنچا تو حضرت عائشہ ایک ماہ تک بیمار رہیں اور تہمت لگانے والے خوب چرچا کرتے رہے جس میں سب سے بڑا ہاتھ عبداللہ بن ابی ابن سلول کا تھا جو منافقوں کا سردار تھا لیکن اپنی بیماری کے دوران حضرت عائشہ اس بات سے پریشان تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لطف ومہربانی کا اندازہ نہیں ہو رہا تھا جو پہلے لطف و مہربانی فرماتے تھے -صرف سلام کر تے اور حال پوچھتے تھے۔
ایک بار ایک عورت نے بتایا کہ آپ پر تہمت لگائی جارہی ہے اور آپکے خلاف باتیں کی جارہی ہیں تو پھر حضرت عائشہ نےاپنے والدین کے گھر جانے کی اجازت مانگی تاکہ سہی بات کا پتہ چلا سکیں۔ساری رات روتی رہیں والدین نے دلاسہ دیا صبر کرنے کا کہا۔لیکن آنسو تھمتے ہی نہیں تھے۔ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس بات سے بہت غمگین تھے۔اس بارے میں ابھی تک کوئی وحی نازل نہ ہوئ تھی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کی باندی سے اس بارے میں تحقیق کی تو انھوں نے کہا کہ مجھے ان میں کوئی عیب نظر نہیں آتا سواۓ اس کے کہ وہ نو عمر لڑکی ہیں ۔بعض اوقات آٹا گوندھ کر سو جاتی ہیں اور بکری آکے آٹا کھا جاتی ہے۔سب نےہی حضرت عائشہ کی عزت شرافت کی تعریف کی۔پھر ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا اے عائشہ مجھے تمھارے بارے میں یہ باتیں پہنچی ہیں۔اگر تم سے کوئی لغزش ہوئی ہے تو توبہ استغفار کرو کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اسکی توبہ قبول فرمالیتے ہیں۔
تو حضرت عائشہ نے فرمایا کہ آپ شاید میری بات کا یقین نہ کریں۔اور پھر جاکر لیٹ گئیں یقین کے ساتھ کہ اللّٰہ تعالیٰ ضرور میری مدد کریں گے۔لیکن یہ خیال نہ تھا کہ اس معاملے میں اللّٰہ پاک قرآن کریم میں آیات نازل کریں گے جو قیامت تک تلاوت کی جائیں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو حضرت عائشہ کے والدین کے ساتھ بیٹھے تھے اٹھے بھی نہ تھے کے آپ پر وہ کیفیت طاری ہو گئی جو نزول قرآن کے وقت ہوا کرتی تھی جب یہ کیفیت رفع ہو ئ تو آپ نے ہنستے ہوئے فرمایا!
اے عائشہ اللّٰہ تعالیٰ کی تعریف کرو اللّٰہ نے تمہیں بری کر دیا۔
(حضرت عائشہ کی برات کے سلسلے میں سورت نورکی دس آ یات نازل ہوئیں)