خوبصورتی (نظامیات ٢)

In ادب
January 21, 2021

خوبصورتی ایک راز ہے. ایک پھول کھلتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ خوبصورت ہے. کوئی چہرہ اچھا لگتا ہے کہتے ہیں خوبصورت ہے. کوئی غزل دل کو چھو جائے تو سامع کہتا ہے خوبصورت ہے، لیکن کیا آپ نے کبھی خوبصورتی دیکھی ہے. آپ نے خوبصورت چیزیں دیکھی ہیں مگر خوبصورتی نہیں دیکھی نہ اس کو جانا ہے. اگر جاننے سے ماورا ہے تو آپ کسی چیز کو خوبصورت کیسے کہ سکتے ہیں.
پھول میں آپ کو خوبصورتی نظر آتی ہےمگر خوبصورتی کو نہیں دیکھا. پھول میں خوبصورتی صبح کِھلتی ہے اور شام ہوتے ہوتے کھو جاتی ہے. ایک چہرے میں خوبصورتی دکھائی دیتی ہےاور کل یہ گم ہو جائے گی، جو آج ہے کل کھو جائے گا جو صبح دیکھا تھا شام کھو جائے گا. کیا اس خوبصورتی کو کبھی چیزوں سے الگ کر کے دیکھا؟ کبھی خالص خوبصورتی دیکھی ہے آپ نے؟ آپ نے خوبصورت چیزیں تو دیکھی ہیں خوبصورتی کو نہیں دیکھا.
پھول کی ترجمانی ہو سکتی ہے اس کی حد ہے اس کی ایک ہئیت ہے بناوٹ ہے اسکی پہچان ہے مگر خوبصورتی کی ترجمانی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کی کوئی حد نہیں بناوٹ نہیں، پہچان نہیں اور پھر بھی ہم پہچانتے ہیں. اگر پہچان نہ ہوتی تو پھول کو کیسے خوبصورت کہ سکتے ہیں. اگر پھول ہی خوبصورت ہے تو پھر رات کا چاند بھی کیوں خوبصورت ہے کسی کی آنکھ کیسے خوبصورت ہے. پھول چاند اور آنکھ میں کیا تعلق ہے؟ خوبصورتی کچھ ہے جو پھول میں بھی ہے چاند میں بھی ہے آنکھ میں بھی ہے اور ان سب سے الگ ہے چاند سے بھی الگ پھول سے بھی الگ آنکھ جو ابھی خوبصورت معلوم ہو رہی تھی ابھی غصے سے بھر جائے تو بدصورت ہو جائے گی. نفرت سے بھر جائے تو بدصورت ہو جائے گی. آنکھ وہی رہے گی مگر کچھ کھو جائے گا، تو یقیناً خوبصورتی نہ تو چاند ہے نہ پھول ہے نہ آنکھ ہے. خوبصورتی کچھ اور ہے.
لیکن اس کو کبھی دیکھا، آمنے سامنے دیکھا کبھی خوبصورتی سے ملاقات ہوئی؟ خوبصورتی سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی. نہ دیکھا نہ جانا.
خوبصورتی کی بات کچھ اور ہے پھر بھی خوبصورتی کو ہم پہچانتے ہیں، جب وہ راز پھول میں اترتا ہے تو ہم کہتے ہیں پھول خوبصورت ہے جب اس کا نزول کسی کی آنکھوں میں ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں آنکھیں خوبصورت ہیں کلام میں ظاہر ہوتا ہے تو کلام خوبصورت لگنے لگتا ہے.
مجھے لگتا ہے کسی انجان راستے سے ہماری اس سے ملاقات بھی ہوتی ہے، کسی انجان راستے سے وہ ہمارے دل میں بھی اتر جاتی ہے اور ایسے ہی کسی انجان راستے سے یہ روح کو بھی چھو لیتی ہے. مگر یہ نہیں معلوم وہ کیا ہے جس کو ہمارا دل محسوس کر لیتا ہے ہماری روح چھو لیتی ہے اور پھر بھی ہماری عقل جس کو پکڑ نہیں پاتی، اس کا احاطہ کرنے سے قاصر رہتی ہے. دماغ اس کو پکڑنے میں ناکام رہتا ہے. یہ خرد کے ہاتھ سے ہمیشہ کھو جاتی ہے.
عقل محدود کو ہی جان سکتی ہے پہچان سکتی ہے، عقل کسی چیز کی پیمائش کرنے کے لئے اس کہ ابتدا دیکھتی ہے اور انتہا دیکھتی ہے کہ یہ شروع کہاں سے ہے اور اس کا خاتمہ کہاں پر ہے. عقل کی اسی محدودیت کی وجہ سے ہر چیز ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے.
عقل جو پیدا ہوتا ہے اور جو مرتا ہے اسے جان سکتی ہے، پھول پیدا ہوتا ہے اور اس کو پیدا کرنے کے ہزاروں راستے بھی ہیں مگر خوبصورتی کو پیدا کرنے کا ایک بھی راستہ نہیں. اس لئے جسے پیدا نہیں کیا جا سکتا اسے مارا بھی نہیں جا سکتا، پھول مر سکتا ہے مگر خوبصورتی نہیں مر سکتی. پھول محدود اور خوبصورتی لامحدود ہے. اس لئے خوبصورتی کے راز کو عقل جان نہیں پاتی اور بھٹکتی رہتی ہے.