پنجاب اور صوفی دانش

In دیس پردیس کی خبریں
January 21, 2021

پنجاب اپنی زرخیزی کی وجہ سے جہاں جسمانی غذا سارے برصغیر کو دیتا آرہا ہے وہیں پنجاب کے صوفی روحانی طور پر پورے برصغیر کو تعلیم، امن ،پیار اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں۔ صوفی ازم ایک عالمگیر فکری نظریہ ہے جو کل انسانیت کو جوڑنے کا ایک بہترین نظریہ ہے یہاں بابا فرید ؒسے لے کر بابا بلھے شاہ،شاہ حسین،سلطان باہو،وارث شاہ ،میاں محمد بخش ، بابا گرونانک ، خواجہ فرید اور کئی صوفیاء نے پنجاب کی زرخیز دھرتی کو اپنی روحانی فکر سے ایک روشن خیال پرامن اور بھائی چارے کی سرزمین بنایا ہے۔ صوفی دانش نے یہاں کے باسیوں کو آپس میں اس حد جوڑا ہوا تھا کہ اگر امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی تعمیر ہوتی ہے تو اس مذہبی عبادت گاہ کی بنیاد ایک مسلمان صوفی حضرت میاں میر ؒ سے رکھوائی جاتی ہے اسی طرح اگر گرو تیگ بہادر سنگھ اورنگ زیب بادشاہ سے ٹکر لیتے ہیں تو گرو صاحب کو پیر سیف الدین پناہ دیتے ہیں کیونکہ صوفیاء کی تعلیم حق کے ساتھ کھڑا ہونا اور ساری انسانیت کو روحانی طور پر جوڑے رکھنا ہے ۔رائے عبداللہ بھٹی المعروف دلا بھٹی اگر مغل سامراج کے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور مغل حکمرانوں کے ساتھ لڑائی لڑتا ہے اور اکبر کو مجبور کردیتا ہے کہ وہ اپنا دارلحکومت دہلی سے لاہور لے آئے اور جب بھٹی کو پھانسی دی جاتی ہے تو اس لاش کو وصول کرنے والے کفن دفن کرنے والے بھی ایک صوفی شاہ حسین تھے بابا گرونانک کے ساتھ بھائی مردانا اور ایک ہندو تھے جو ساری زندگی ان کے ساتھ رہے۔ اس لیے پنجاب اپنی نوعیت کا پہلا سیکولر خطہ تھا جس میں ہمیں اقتدار کی جنگیں تو نظر آتی ہیں مگر مذہبی فساد بالکل نظر نہیں آتا ۔ملکہ ہانس جہاں بابا وارث شاہ ؒنے ہیر لکھی جس مسجد میں وارث شاہ نے قیام کیا اس کے بالکل سامنے پرنامی مندر ہے لیکن ہیر میں کہیں ہندو مسلم فساد کا تذکرہ نہیں ملتا یہ سارا کریڈٹ یہاں کے صوفیاء کو جاتا ہے کہ انہوں وحدت الوجود کے فلسفے کے ساتھ یہاں کے تمام انسانوں کو بلاتفریق ذات رنگ ،نسل اور مذہبی تفریق کے جوڑے رکھا بابا گرونانک دیو جی مہاراج نے گروگرنتھ صاحب میں بابا فرید ؒ کے کلام کو شامل کیا اور سکھ مت کی کتاب کی وجہ سے بابا فرید کا کلام محفوظ ہے پنجاب کی صوفی دانش کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں کے صوفی ملاں کی طرح سرکار دربار سے نہیں جڑے کیونکہ سرکار ظلم وجبر پر قائم ہوتی اور صوفی عملی طور ظلم کے خلاف موثر آواز بن کر لوگوں کی قیادت کرتا ہے ۔ پنجاب کی صوفی دانش عالمگیر بن چکی ہے اور بابا بلھے شاہ اور دوسرے صوفیاء کے کلام کو انگریزی میں ترجمہ کیا جاچکا ہے ۔
پنجاب میں حکمران طبقہ نے دو تین سو سال پہلے جو مذہبی نفرت کا بیج بویا تھا اب وہ تناور درخت بن چکا ہے جسے ختم کرنے کے لیے دوبارہ صوفیاء کرام کی تعلیمات کی اشد ضرورت ہے اور آخر میں میاں محمد بخشؒ کا شعر (دشمن مرے تےخوشی نا کرئیے سجناں وی مرجانا) یعنی دشمن کی موت پہ خوش مت ہو دوستوں نے بھی مرنا ہے یہاں کی صوفی دانش کا بہترین اظہارہے
عبدالرحمن شاہ

/ Published posts: 20

استاد ،رائٹر،آرٹسٹ اور سماجی کارکن