پچھلے کافی ارصے سے پاکستان اور سعودیہ کے درمیان حالات کافی کشیدہ ہیں جب وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے حکومت کی باگ دوڑ سمبھالی تو پاکستان کا خزانہ بلکل خالی تھا یہاں تک کے لوگوں کو تنخوا دینے کے لئے بھی پیسے نہیں تھے جس پر حکومت پاکستان نے دوست اسلامی ممالک سعودی عرب اور یو اے ای سے رابطہ کیا جس پر سعودیہ نے پاکستان کو تین ارب ڈالر اور اتنی ہی مالیت کا تیل دینا کیا پیسے تو پاکستان کو دے دیئے گئے لیکن تیل نہیں دیا گیا اور یو اے ای نے آج تک پاکستان کو دو ارب ڈالر دیئے ہیں پھر اسکے بعد ستائیس فروری کا واقعہ ہوا تو پاکستان کو بقیہ رقم ادا نہیں کی گئی۔
اب سعودیہ نے دو ارب ڈالر واپس لے لئے اور انڈین میڈیا کے مطابق یو اے ای نے بھی اسی مہینے واپس مانگ لئے ہیں ان دونوں دوست ممالک اور پاکستان کے درمیان مسلسل دوریاں بڑھ رہی ہیں مسئلہ کشمیر پر سعودیہ کا وزرا خارجہ کانفرنس نہ بلانا حالات میں کشیدگی سب سے بڑی وجہ ہے سعودیہ کا اسرائیل کو ماننے سے متعلق بڑھتا ہوا دباؤ بڑی وجہ ہے دوسری وجہ پاکستان کی۔
جب سے امریکہ نے اسرائیل کو مختلف سے تسلیم کروانے کا مشن شروع کیا ہے تو سعودیہ اس میں قلیدی کردار ادا کر رہا ہے جس کی وجہ یا دباو سے بہت سے عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا پاکستان کے مالی حالات اور ایف اے ٹی ایف کو دیکھ کر پاکستان کو مختلف پیشکش بھی کی گئی لیکن پاکستان مسلسل اپنی بات پر قائم ہے اور اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اب کی پاکستانی حکومت آزاد خارجہ پالیسی پر یقین رکھتی ہے اور اس پر عمل پیرا ہے ۔
پاکستان کی دوسرے ممالک سے بڑھتی قربت سعودیہ کو ایک آنکھ نہ بہائی حال ہی میں انڈین آرمی چیف نروانے پہلی بار سعودیہ اور یو اے ای کا دورہ کر کے آئے ہیں۔
اب آپس ممالک میں کشیدگی کم یا ختم کرنے کے لئے حکومت پاکستان نے لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر کو سعودیہ کا نہیا سفیر مقرر کیا ہے لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر کی خدمات قابل تحسین ہیں انہوں نے چیئرمین پی او ایف پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ کینٹ کمانڈر ٹین کور راولپنڈی چیف آف جنرل اسٹاف جی ایچ کیو ڈائریکٹر جنرل پاکستان رینجرز سندھ اور جی او سی گیارہ انفنٹری ڈویژن لاہور کی حثیت سے خدمات انجام دی۔
ان سے پہلے راجہ علی اعجاز نے دو سال تک سعودیہ میں سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں اب سعودیہ اور پاکستان دونوں کے سفیروں کا پس منظر فوج سے ہے پاکستان میں سعودیہ کے سفیر نواف بن سعید ال مالکی کا تعلق سعودی نیوی سے ہے۔
تحریر:: ملک جوہر