ابو القاسم قشیری کا یہ مقولہ تھا کہ خرقان آنے کے وقت مجھ پر حضرت ابو الحسن کا خوف اس درجہ طاری تھا کہ بات کرنے کی بھی سکت نہیں تھی جس کی وجہ سے مجھے یہ خیال پیدا ہو گیا کہ شاید مجھے ولایت کے مقام سے معزول کر دیا گیا ہے
جب شیخ بو علی سینا آپ کی شہرت سے متاثر ہو کر بغرض ملاقات خرقان میں آپ کے گھر پہنچے اور آپ کی بیوی سے پوچھا کہ شیخ کہاں ہیں تو بیوی نے جواب دیا کہ تم ایک زندیق و کاذب کو شیخ کہتے ہو مجھے نہیں معلوم کہ شیخ کہاں ہے البتہ میرے شوہر تو جنگل سے لکڑیاں لانے گئے ہیں یہ سن کر شیخ بو علی سینا کو خیال آیا کہ جب آپ کی بیوی ہی اس قسم کی گستاخی کرتی ہے تو نا معلوم آپ کا کیا مرتبہ ہے
گو میں نے آپ کی بہت تعریف سنی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ بہت ادنی درجے کے انسان ہیں پھر آپ کی جستجو میں جنگل کی جانب روانہ ہوئے تو دیکھا کہ آپ شیر کی کمر پر لکڑیاں لادے تشریف لا رہے ہیں یہ واقعہ دیکھ کر شیخ بو علی سینا کو بہت حیرت ہوئی اور قدم بوس ہو کر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کو ایسا بلند مقام عطا فرمایا ہے اور آپ کی بیوی آپ کے متعلق بہت بری باتیں کہتی ہے
آخر اس کی کیا وجہ ہے آپ نے جواب دیا کہ اگر میں ایسی بکری کا بوجھ برداشت نہ کر سکوں تو پھر یہ شیر میرا بوجھ کیسے اٹھا سکتا ہے پھر آپ شیخ بو علی سینا کو گھر لے گے اور کچھ دیر گفتگو کرنے کے بعد کہ اب مجھے اجازت دے دو کیونکہ میں دیوار تعمیر کرنے کیلئے مٹی بھگو چکا ہوں یہ کہہ کر آپ دیوار پر جا بیٹھے اس وقت آپ کے ہاتھوں سے بسولی چھوٹ گئی زمین پر گر پڑی جب شیخ بو علی سینا اٹھا کر دینے لگے تو وہ بسولی خود بخود زمین سے اٹھ کر آپ کے ہاتھ پہنچ گئی اس کرامت کو دیکھ کر شیخ بو علی سینا آپ کے معتقد ہو گئے