عصر حاضر میں میڈیا ایک معاشرے کو چوتھا ستون بن چکا ہے۔اس کی وجہ سے ہماری زندگی پر مسبت اور منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
آئے دن موبائل اور انٹرنیٹ کا بےجا استعمال دیکھنے کا مل رہا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے اردگرد انسان نہیں بلکہ چند سانسوں کی ڈوری میں بندے زی نفس ہیں۔ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی میں دولت کے پیچھے بھاگتے ہوئے یہ لوگ سکون کے دو پل کو ترس گئے ہیں
حسد ‘ ڈر اور خوف کسی معاشرے کو بھی کھوکھلا کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ موجودہ دور میں لوگوں میں احساس محرومی میں اضافہ ہوا ہے۔
شک کسی بھی رشتے کو دیمک کی مانند کھا جاتا ہے۔ شکوک اس وقت جنم لیتے ہیں جب ہم کسی تصویر کا ایک رخ دیکھیں۔
موبائل اور انٹرنیٹ کا غلط اور بےجا استعمال ہمارے اندر موجود احساسات کو ختم کر رہا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ بدنام احساس “محبت” کا ہے۔
اس محبت کے معاملے میں ہمارا معاشرہ شدید زوال پزیر ہے۔ اب یہ احساس صرف جسمانی تعلق تک محدود رہ گئی ہے۔
کسی بھی خوشی کے مواقع پر امیر لوگ غریبوں اور ضرورت مند لوگوں کی امداد کرتے وقت تصویروں کا انبار لگا دیتے ہیں۔وہ غریب’غربت سے نہیں تو ان کے اس احساس تلے آکر ضرور مر جاتے ہونگے۔
اس انٹرنیٹ کی ہر شخص تک رسائی آسانیوں کے ساتھ ساتھ بہت سے مسائل بھی پیدا کر رہی ہے۔ اب بچے اپنی عمر سے پہلے ہی بالغ ہونے لگے ہیں۔ اسی لیے والدین یا سرپرست کو چاہیے کہ بچوں پر کڑی نظر رکھیں کیونکہ یہ عمر بہکنے کی طرف جلدی مائل ہوتی ہے۔
پہلے عورت کو بہت زیادہ عزت ملتی تھی اور عورت خود کو اپنی چار دیواری کو اپنی حفاظت سمجھتی ۔ مگر اب سوشل میڈیا کی وجہ سے عورت خود کو ایک قیدی سمجھتی ہے کہ جس کو آزادی کے لیے کوشش کرنا چاہیے۔
یہ قید نہیں بلکہ اس کی حفاظت کا خول ہے۔ جو کہ اسلام نے عورت کو دیا ہے۔
بد قسمتی سے ہمارا میڈیا مغرب کی عکاسی کرتا ہے اور یہ ان پہلوؤں کا اجاگر کرتا ہے جو مغرب میں عام ہیں۔ یہ پہلو ہم پر اور ہمارے معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
اس میڈیا کی بدولت ہم مغربی اقدار کے ہم آہنگ ہوتے جارہے ہیں۔ جو کہ ہمارے مشرقی اور اسلامی اقدار کے مخالف ہے۔