Skip to content

سلطان جلال الدین خوارزم شاہ ۔۔۔

سلطان جلال الدین خوارزم شاہ آزربائیجان کے شمال مغرب میں ایک پہاڑی قلعےپر مقیم تھے۔تاتاریوں کی فوج ان کےتعاقب میں تہران تک پہنچ چکی تھی لیکن برف باری کی وجہ سےان کی پیش قدمی کا خطرہ نہیں تھا۔سلطان کا اب دنیا سےدل اٹھ چکا تھا۔اب وہ زیادہ وقت تنہائی میں گزارتے تھے۔ان کے بہت سے ساتھی جا چکے تھے۔سلطان کے سپاہیوں کی تعداد ڈیڑھ سو کےقریب تھی۔یہ وہ سپائی تھےجن کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھااور وہ مرتے دم تک سلطان کا ساتھ دینے کااحد کرچکےتھے۔ایک دن پہرے دار نےاطلاع دی کہ بغداد سےعبدالمالک آپ کو تلاش کرتا ہواآ پہنچا ہے۔”کیا! عبدالمالک! اسے اب مجھ سے کیا کام ہے؟

“۔پہرے دار نے بتایا کہ وہ کئی دن آزربائیجان میں بھٹکنےکےبعد یہاں پہنچا ہے”۔”مجھے کسی سے نہیں ملنا”۔ایک افسر نے کہا”ہو سکتاہےکہ وہ بغداد سےاچھی خبر لایا ہو”۔سلطان نےچلا کر کہا”میرے سامنے بغداد کانام مت لو”۔”آو عبدالمالک! یہاں بیٹھ جاو۔ عبدالمالک میں یہ سمجھتاتھا کہ یہ مقام زندگی کی نگاہوں سے بہت دور ہے مجھے امید تھی کہ یہاں تک میرا پیچھا کوئی نہیں کر سکتالیکن اب مجھے ٹھکانابھی بدلنا پڑے گا”۔سلطان نے آہ لیتے ہوئے کہا”تم بغداد کی فوج کہاں چھوڑ آئے”۔عبدالمالک نےآبدیدہ ہوتےہوئے کہا”سلطان میں نے ایک ہی ایسا شخص دیکھاتھا جو مایوس ہونانہیں جانتا تھا”۔سلطان نے کہا”وہ شخص جسے تم جلال الدین خوارزم شاہ کے نام سے جانتے تھے مر چکا ہے”۔ عبدالمالک نے کہا”کیا آپ یہ تسلیم نہیں کرتےکہ آپ کےاعتراف شکست کے بعد ان لاکھوں لوگوں کی قربانی رائیگاں جائے گی جو آخری فتح کی امید میں آپ کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے”۔سلطان نے جواب دیا کہ”تم یہ چاہتے ہو کہ جب تک میں زندہ ہو،تھوڑے تھوڑے مسلمان جمع کر کے موت کے منہ میں دھکیلتا رہوں؟میں اس امید پرلڑتارہاکہ کبھی توعالم اسلام بیدارہوگاکبھی توبغداد کی فوج یہاں آئے گی۔

میں نے اپنا فرض پورا کیا ن مراکش سے لےکر ہندوستان تک تسلی کے پیغامات بھیجے لیکن اس کا کیا فائدہ ہوا؟میں اٹھوں تو کس کے سہارے پر؟لڑوں تو کس کی امید پر؟تم ایسی قوم سے کیا امید رکھتے ہو جس کے امراء ملت فروش ہوں،جس کے علماء جہاد کے خلاف فتوے جاری کریں،جس کے سپاہیوں کی تلوار کا لوہا موم بن چکا ہو”۔عبدالمالک نےکہا”خلیفہ کی غداری کےبعد خدا کی رحمت کےدروازے بند نہیں اگر ہندوستان نہیں تو ہم مراکش یامصر جائیں گےہم تاتاریوں سے آفریکہ کے تپتے صحرا میں بدلا لے سکتے ہیں۔ہم تب تک لڑیں گے جب تک خدا کی رحمت جوش میں نہ آجائے”سلطان نے تلخ لہجے میں کہا”تم مجھے پریشان کیوں کرتے ہو۔میں بہت سی سلطنتوں کوپیغام بھیج چکاہوں اوران کےجواب بھی آچکے ہیں۔وہ حق بجانب ہیں ایک ہارے ہوئے بادشاہ کو اپنے ساتھ ملا کر پانچ لاکھ تاتاریوں کو حملےکی دعوت کون دیگا؟میں اپنا فرض پوراکرچکاہوں۔”

سلطان اٹھ کھڑے ہوئے اورکوئی بات کیے بغیر دوسرے کمرے میں چلےگئے۔جب وہ واپس آئے تو سواری کے لباس میں تھے۔سب حاضرین مجلس کھڑے ہو گئے۔سلطان نے کہا”میں تم سب کو حکم دیتا ہوں کہ کوئی میرا پیچھا نہ کرے میں مسلمانوں کی حفاظت کے لیےتمہاری تلوارکا مستحق نہیں لیکن اب اپنے لیےکسی کی جان خطرے میں ڈالنا گوارانہیں کرتا”۔ایک سردار نے پوچھاکہ آپ اتنی برف باری میں کہاں جائیں گے لیکن سلطان نےکہامیں تمہیں یہ سوال پوچھنےکی اجازت نہیں دیتا۔اگر تم کچھ کرنا چاہتےہوتو یہ دعا کرو کہ خدامجھے عزت کی موت دےاور تم سب یہاں سے چلے جاو یہ نہ ہو تاتاری اس علاقے کو بھی تباہ کر دیں۔ عبدالمالک تم ان سب کو ہندوستان لےجاومجھےیقین ہےکہ سلطان التمش ان کی مدد کرےگا۔

کچھ دیر بعد یہ لوگ قلعے کے دروازے پر سلطان کو الوداع کر رہے تھے ایسا کوئی نہ تھا جس کی آنکھوں میں آنسو نہ ہوں۔سلطان خوارزم شاہ برف باری کے طوفان میں روپوش ہو گئے اور اس کے بعد کسی کومعلوم نہ ہو سکاکہ وہ کہا ہیں۔ منگولوں نے ان کی تلاش میں چپہ چپہ چھان مارا کئی افراد کوجلال الدین سمجھ کر قتل کیا لیکن سلطان کاکوئی سراغ نہ ملا۔ان کے متعلق بہت سی افواہیں گردش کرتیں کہ وہ فلاں علاقے میں درویش کےروپ میں دیکھےگئے یایہ خبر آتی کہ وہ آخری جنگ کی تیاری کر رہےہیں یاکسی غدار نے انہیں قتل کردیا۔وقت کےساتھ سب کو یہ یقین ہو گیاکہ شیر خوارزم اب اس دنیا میں نہیں رہے۔دنیا نےکئی سال بعد بغداد کاانجام بھی دیکھ لیا۔ عبدالمالک سلطان التمش کاایک کمانڈر بن چکا تھا لیکن اسے یہ دکھ رہاکہ وہ بغداد کے لیئےکچھ نہ کر سکا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *