اسلام علیکم۔۔
آج میں آپ کو ایک دلچسپ اور سچی کہانی بتاؤ گا۔ ایک گاؤں میں ایک شخص جس کا نام عباس تھا اس گاؤں میں اس کا ایک چھوٹا سا گھر تھا۔وہ ایک کسان تھا کاشتکاری کرتا تھا کچھ اس کی اپنی زمینیں تھیں اور کچھ زمینیں اس عباس نے ٹھیکے پہ لی ھوئی تھیں۔ عباس کی زمینوں میں باغ بھی لگا ھوا تھا۔ باغ کے آخری کونے میں ایک گہرا کنواں تھا۔ عباس کنوئیں سے پانی اوپر کو کنچھتا اور باغ کے پودوں میں ڈالتا ایک سال بارشیں بالکل نہیں ھوئی سورج بہت گرم تھا۔
کسان نے اپنے باغ کی طرف دیکھا اور کہا اگر پانی نہ ملا تو میرے پودے مر جائیں گے۔ مجھے ان کو پانی ضرور دینا چاہیے لیکن پانی تو اب بہت گہرائی میں اتر گیا ھے ۔ اور میں بہت بوڑھا ھو گیا ھوں اور موٹا بھی ھو گیا ھوں-بہت محنت کا کام ھے مجھے کیا کرنا چاہیے ، یہ سوچتا ھوا وہ سڑک کے کنارے بنی ہوئی چاردواری تک آگیا ۔ وہ تھک کر ایک درخت کے نیچے بیٹھا ھی تھا کہ اس کے کان میں گھسر پھسر کی آواز آئی کوئی اس کا نام لے رھا تھا ۔ عباس کے کان کھڑے ہو گئے اور ان لوگوں کی باتیں غور سے سننے لگا وہ دونوں باغ کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ انہوں نے کسان کو نہیں دیکھا تھا ان دونوں میں سے ایک نے کہا کہ عباساور اس کی بیوی ٹھیک نو بجے سونے کیلئے چلے جاتے ھیں ۔ ہمیں کم از کم دو گھنٹے اور انتطار کرنا چاہیے پھر گیارہ بجےکےقریب ہم دیوار میں ایک بڑا سا سوراخ بنائیں گےاس سوراخ سے گزر کر میرا چھوٹا بیٹا اندر جاے گا اور دروازے پر لگی کنڈی کھولے گا ۔ اس کے ساتھی نے پوچھا کیا عباس کے پاس بہت ساری دولت ھے؟ دوسرے آدمی نے جواب دیا ہاں کیوں نہیں ۔ اس کے پاس بہت سارے ہیرے جواہرات ھیں ۔
جو اس نے اپنے گھر میں ایک بڑے سے صندوق میں رکھے ھوئے ھیں۔ وہ بہت امیر آدمی ھے پہلے آدمی نے خوش ہو کر کہا یہ تو اچھی بات ہے ۔عباس نے ان دونوں کی باتیں سنی اور جلدی سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا اور گھر جا کر اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ آج رات ہم ٹھیک نو بجے کھانا کھائیں گے۔ عباس نے اپنا سارا روپیہ ، سونا چاندی اور جوہرات اکھٹے کیے اور اپنے پلنگ کے نیچے چھپا کر رکھ دیا ۔ پھر وہ چھوٹے بڑے پتھر گھر میں لایا اور بیٹھ کر انتظار کرنےلگا ۔ ٹھیک نو بجے عباس نے کھڑکی سے جھانکا اور اس نے دونوں چوروں کو درختوں کے درمیان چھپے ھوئے دیکھ لیا ۔ عباس نے اپنی بیوی سے کہا ۔ بیگم کیا کھانا تیار ھے اگر تیار ھے تو لے آؤ ۔ پھر وہ دونوں کھانا کھانے بیٹھ گئے ۔ پہلے چور نے دوسرے سے کہا کہ رات کے نو تو بج چکے ہیں لیکن عباس تو ابھی جاگ رہا ھے ۔ ہمیں ذرا قریب جا کر دیکھنا چاھے کہ عباس اور اس کی بیوی کیا کر رہے ہیں۔ چور گھر کے کچھ اور قریب آگئے ایک چور نے کھڑکی سے اندر چھانکا اور بولا وہ تو کھانا کھا رھے ھیں عباس نے چوروں کی آہٹ سن لی تو وہ زور زور سے بیوی سے باتیں کرنے لگا ۔ وہ بولا میں نے سنا ھے اجکل بڑی چوریاں ھو رھی ھیں ۔ اس علاقے میں بھی کچھ چور آگئے ہیں ۔ انہوں نے میرے دوست علی کا سارا سونا اور جواہرات چرا لیے ہیں۔ اس کی بیوی گھبرا کر بولی ارے پھر تو چور ہمارے گھر بھی ا سکتے ہیں ۔
عباس نے جواب دیا ہاں وہ ا سکتے ہیں ہمیں اپنا سونا ہیرے جواہرات ایسی جگہ چھپا دینا چاہیے جہاں سے کوئی نکال نہ سکے ۔ عباس نے اپنی بیوی سے کہا میرا صندوق لاؤ بیوی صندوق لے آ ئ ۔ عباس نے اپنی بیوی کو پتھر جمع کر کے دیے اور چپکے سے اس کے کان میں کہا یہ ہمارا سونا اور جواہرات ھیں ۔ پھر زور سے بولا کہ پہلے مجھے سونے کی اینٹیں اٹھا کر دو میں انہیں صندوق میں رکھ دوں۔ اس کی بیوی نے کچھ پتھر اٹھا کر د یے ان کی پیٹھ کھڑکی کی طرف تھی ۔ عباس نے اتنی چالاکی سے اسے صندوق میں رکھا کہ چور دیکھ ہی نہیں سکے۔ عباس نے قہقہ لگایا اور بولا ۔ میں انہیں ایسی جگہ چھپاؤ گا جہاں سے کوئی نہیں نکال سکے گا میرے ہیرے جواہرات کی تھیلی بھی لاؤ وہ اور پتھر لے ای۔ عباس اور اس کی بیوی نے وہ صندوق اٹھایا اور باہر نکل کر باغ کے کنویں میں ڈال دیا ۔ زور کی آواز آئی اور صندوق کنوئیں کی تہہ میں بیٹھ گیا۔ پھر وہ گھر کے اندر چلے گئے اور لالٹین بجھائی اور انتطار کرنے لگے ۔ پہلا چور بولا انہوں نے آپنا سونا اور ہیرے جواہرات کنوئیں میں چھپا دیے ہیں ۔ اب وہ سونے چلے گئے ہیں اور کچھ ہی دیر میں سو جائیں گے۔تھوڑی دیر بعد چپکے سے عباس نے کھڑکی سے جھانکا تو دیکھا کہ چور کنوئیں کے پاس کھڑے تھے ۔ پہلا چور بولا کہ ہمیں کنوئیں کا پانی نکالنا چاھے ویسے بھی قہت کا موسم ہے زیادہ پانی نہیں ھو گا ۔
جب پانی کم ھو گا تو میں کنوئیں میں اتر جاؤ گا اور صندوق نکال لوں گا۔ انہوں نے کنوئیں سے پانی نکالنا شروع کر دیا ایک چور پانی اوپر کھنچتا اور دوسرا اسے باغ میں جانے والی نالی میں پانی ڈال دیتا ۔ کنوئیں میں بہت سارا پانی تھا ۔ وہ دونوں پوری رات پانی نکالتے رھے یہاں تک کہ صبح ھو گئ مگر وہ ابھی تک مصروف تھے ۔ عباس نے کھڑکی کھولی اور چلایا ، بہت بہت شکریہ میرے دوستوں تم نے میرے باغ کو سیراب کر دیا ۔ کنوئیں والا صندوق پتھروں سے بھرا ہوا ھے ۔ پولیس آرھی ھے وہ سڑک تک پہنچ گئے ھیں
اللہ حافظ میرے دوستوں تمہارا ایک بار پھر شکریہ ،،