(حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
کےدو امتیوں کے درمیان آخرت میں اللہ تعالی کی صلح کروانا،
تحریر :عاصم خان
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،کہ ایک دفعہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔
کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے مبارک پر مسکراہٹ ظاہر ہوئی ،حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ کہ کونسی چیز مسکراہٹ کا سبب بنی ؟
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے دو امتی اللہ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر کھڑے ہیں ۔ایک کہتا ہے یا اللہ اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور میں اس کا بدلہ چاہتا ہوں ۔
تو اللہ تعالی ظالم سے فرمائے گا، کہ آپنے ظلم کا بدلہ ادا کرو ، ظالم کہے گا کہ میرے پاس تو اب کوئی نیکی ہی نہیں بچی کہ اس سے میں آپنے ظلم کا بدلہ ادا کرو ۔
پھر طالب انتقام (مظلوم )کہے گا اے اللہ میرے گناہوں کا بوجھ اس کے اوپر ڈال دیں ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ۔کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے اور فرمانے لگے کہ وہ دن بہت سخت ہوگا ،اور لوگ اس بات کے حاجت مند ہونگے کہ اپنے گناہوں کا بوجھ دوسروں پر ڈال دیں ۔
پھر اللہ تعالی اس مظلوم سے کہے گا کہ جنت کی طرف دیکھ تو وہ جب جنت کی طرف اپنی نظر دوڑائے گا اور یک دم بول اٹھے گا
یا اللہ اس میں تو سونے چاندی کے محل ہیں جو موتیوں سے بنے ہوئے ہیں ۔کیا یہ کسی نبی ،صدیق ،اور شہداء کے لئے ہیں ۔
اللہ تعالی فرمائے گا کہ جو اس کی قیمت ادا کرے گا یہ اس کو دیے جائیں گے ۔تو مظلوم بول اٹھے گا یاللہ بھلا اس کی قیمت کون ادا کر سکتا ہے ۔
اللہ تعالی فرمائے گا تو ادا کرسکتا ہے وه مظلوم اللہ سے سوال کرے گا کس طرح ۔
اللہ تعالی اس سے فرمائے گا اس کی قیمت یہ ہے کہ تو اپنے اس بھائی کو معاف کر دیں وه بولے گا یا اللہ میں نے معاف کیا ۔
پھر اللہ تعالی ان دونوں سے فرمائے گا تم دونوں بھائی ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے جنت میں داخل ہو جاؤں ۔
اس کے بعد سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔کہ اے لوگوں تم آپس میں ایک دوسرے کے درمیان صلح کرواؤں ۔
کیونکہ آخرت میں اللہ تعالی بھی مومنین کے درمیان صلح کرائے گا ۔
(صحیح بخاری۔ )