اسلام علیکم امید ہے.اپ سب خیریت سے ہوں گے.زیادہ وقت نہیں گزرا. گھروں میں شام کو جلدی کھانا کر سب گھر والے بستروں میں لیٹ جاتے تھے. بہت کم گھروں میں ٹیلیویژن ہوتا تھا. کھانے کے بعد گھروں میں گھر کے مرد حضرات حقہ لے کر اپنے دوستوں اور بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کر دن بھر کی مصروفیت کے بارے بات چیت کرتے تھے. اور بزرگوں سے مفید مشورے لیتے.
خواتین گھروں بچیوں کو امور خانہ داری کے بارے میں بتاتی تھیں.بچوں بچیوں کو دادی اماں نماز اور کلمے سکھاتی تھیں. اسلامی کہانی سناتی تھیں. بچے اپنے بڑوں کا احترام کرتے تھے. کھیل کے میدان آباد تھے. کوئی بڑا کوئی بات کہہ دے تو برداشت کرتے تھے.پھر وقت گزرتا گیا. ٹیلیویژن ہر گھر میں عام ہوتا گیا. گھروں کا سائز بڑا ہوتا گیا. کمروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا. بچوں کے لیے علیحدہ کمرہ بن گیا.بزرگوں کی کہانیوں کی جگہ ٹیلیویژن نے لی.پھر ہر فرد کے کمرے میں علیحدہ ٹیلیویژن آ گیا. مزید وقت گزرا تو موبائل فون عام ہوا.ٹیلیویژن بند ہو گیا. گھر کے ہر فرد کے پاس اپنا موبائل آتا گیا.آج موبائل ہر چھوٹے بڑے، مرد عورت بچے. امیر غریب کے ہاتھ میں نظر آتا ہے. بچوں کی تعلیم متاثر ہونا شروع ہو گئی. کھیل کے میدان غیر آباد ہو گئے.گھر میں شوہر اپنے موبائل پر مصروف، بیوی اپنے موبائل پر مصروف. بچے اپنےموبائل، ٹیبلٹ پر مصروف. ماں باپ کو بچوں کی خبر نہیں، بچوں کو ماں باپ کی پرواہ نہیں. نہ ادب احترام. نہ لحاظ. نہ رشتوں کی پہچان.موبائل فون پر سوشل میڈیا کی وجہ سے پوری دنیا سے رابطہ لیکن ساتھ والے کمرے میں بوڑھے والدین کی خبر نہیں.آج پاکستان میں 90 فیصد معاشرتی جرائم کی وجہ ہمارا سیلیور فون ہے. جوان لڑکیوں کا والدین کی عزت داؤ پر لگانا. بچوں کا موبائل فون پر غیر اخلاقی مواد دیکھنا. طلاق کی شرح میں ہولناک اضافہ. آج موبائل فون ہماری زندگی میں کینسر کی طرح سرایت کر چکا ہے.
اسکے زمہ دار بھی ہم خود ہیں.موبائل فون کو ضرورت کے وقت استعمال کرنا چاہیے. گھر میں داخل ہوں تو موبائل کو خود سے دور رکھیں. اور بچوں کو وقت دیں. انکی پڑھائی کے بارے میں پوچھیں. اگر بچوں کو موبائل فون لے کے دیا ہے تو اسکو چیک کریں کہ اسکی موبائل فون پر کیا مصروفیات ہیں. کہیں وہ اس سہولت کا غلط استعمال تو نہیں کر رہا.خود بھی اور بچوں کو بھی سوشل میڈیا سے جتنا ہو سکے دور رکھیں.اللہ پاک ہماری نیتوں میں اخلاص اوراعمال میں برکت عطا فرمائے آمین.