تحریر: ملک صداقت فرحان
مغرب کے فنڈز پر چلنے والی این جی اوز کی ورکرز خواتین اٹھ کر کہتی ہیں کہ اسلام اور مشرقی روایات نے عورت ذات کو حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے اگر اسکرٹیں پہن کر گھومنا اور جگہ، جگہ بے حیائی پھیلانا خواتین کا حق ہے تو ہم ایسے حق اور اس حق سے ملتے جلتے وہ تمام حقوق جو دنیا اور آخرت میں مسلم امہ اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے باعث شرم بنیں ان سب کو ٹھوکر مارتے ہیں. خواتین کے حقوق اگر ہیں تو صرف مشرق کی معزز روایات اور دین اسلام میں ہیں یقین نہیں اتا تو آئیں چلیں میرے ساتھ مشرق اور اسلام کی طرف…
جہاں بس میں قدم رکھنے کی جگہ نہ ہو پھر بھی خواتین کو بیٹھنے کے لیے سیٹ پیش کی جاتی ہے، جہاں ہر انجان بچی، لڑکی اور خاتون کو بیٹا، بہن، اماں یا ماں جی کہ کر مخاطب کیا جاتا ہے، جہاں خواتین کو قیمتی چیز کی طرح ہیرے جواہرات کی طرح چھپا، چھپا کر ڈھانپ، ڈھانپ کر رکھا جاتا ہے، جہاں عورت پر ہاتھ اٹھانا اخلاقی، قانونی اور اسلامی جرم ہے، جہاں عورت کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے کو بے شرمی اور بے غیرتی تصور کیا جاتا ہے، جہاں عورت کو گھر کی رونق، اللہ کی نعمت اور رضامندی تصور کیا جاتا ہے، جہاں کرائے کے باڈی گارڈز دستیاب ہونے کے باوجود خواتین کی حفاظت خواتین کے اپنے بھائی، باپ، شوہر اور بچے کرتے ہیں اور جہاں دو بیٹیوں کی بہترین پرورش کے بعد اچھی جگہ شادی کرنے پر جنت کی بشارت دی جاتی ہے… وہاں پر یعنی مشرق پر اور مشرق کی فضاؤں میں پھیلے دین اسلام پر خواتین کو خواتین کے حقوق سے محروم رکھنے کا گھٹیا اور بے ہودہ الزام لگایا جائے یہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں.
1)- مغرب کے گھناؤنے الزامات:
ہر سال خواتین کے حقوق کے نام پر مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے. غروب ہونے والے تلوع ہونے والوں کی عزتوں اور جزباتوں سے کھیلتے ہیں اتنا ہی نہیں بلکہ ہر سال غروب ہونے والوں کی طرف سے دین اسلام کو گالیاں نکالی جاتی ہیں اللہ کے دین کو بے انصاف کہا جاتا ہے…
مسلمانوں ہوش میں آؤ اور مغرب کی غلامی سے نکل کر اپنے جذباتوں کی، عزتوں کی اور دین اسلام کی حفاظت کرو…
اللہ پاک ہم سب کو غیرت مند مسلمان بنائے آمین.