پچھلے کافی دنوں سے سوشل میڈیا اور باقی بہت سے پلیٹ فارم پر ایک میسج بہت گردش کر رہا ہے جو آپ سب نے دیکھا ہوگا اور ہم نے بھی دیکھا ہے کے نیب نے نواز شریف کی بیرون ملک جائیدادیں ڈھونڈنے کیلئے براڈ شیٹ نامی ایک ادارے کے معاعدہ کیا اور جب انکو نواز شریف کی کوہی جائیداد نہیں ملی تو نیب نے انکو پیسے دینے سے انکار کردیا جس پر نیب کو برطانیہ میں ساڑھے چار عرب کا جرمانہ ہوا۔
ہوا۔
اب حقیقی بات کی طرف آتے ہیں جو حقیقت ہے اور سب جانتے بھی ہوں گے اور جو نہیں جانتے وہ خدا کرے گا جان جائیں گے نیب وجود میں آیا تھا 1999 میں اور اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اس کو احتساب کے لیے بنایا تھا اسکے جو پہلے چیف تھے وہ تھے کمانڈر ذکا اللہ انہوں نے اپنے دور میں برطانیہ کی ایک کمپنی سے معاعدہ کیا تھا 1999 میں براڈ شیٹ سے کے برطانیہ میں جتنے بھی پاکستانیوں کی جائیدادیں ہیں انکی اطلاع آپ ہمیں دیں گے یہ سوچا گیا کہ جو جو اطلاعات پاکستان تک پہنچیں گی انکی بنیاد پر کروائی ہوگی۔
یاد رہے کے جب یہ معاعدہ ہوا اس وقت نواز شریف اور ان کے خاندان والے جلا وطن تھے وہ اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف سے معاعدہ کر کے چلے گئے تھے پاکستان میں انکے خاندان کے صرف حمزہ شہباز تھے۔
2002 میں جب ق لیگ کی حکومت آئ تو مشرف کا احتساب کا ارادہ بدل گیا تب 2003 میں نیب نے یکطرفہ طور پر یہ معاعدہ ختم کر دیا تھا یہ بات ہے 1999 سے 2003 تک کی نواز شریف کے پاس برطانیہ کے فلیٹس پہلے کے ہیں اگرچہ نواز شریف 2006 کا کہتے ہیں لیکن نیب کے پاس اسکے ٹھوس ثبوت ہیں کے یہ پہلے کے ہیں۔
2003 سے نیب کا یہ کیس برطانیہ کی عدلت میں چل رہا تھا براڈ شیٹ والے پیسے مانگ رہے تھے جب کہ نیب والے کہ رہے تھے کے ہمیں جو معلومات چائیے تھی وہ انہوں نے نہیں دی برطانیہ کے کیوں کہ قوانین ایسے ہیں جو صرف انکو فائدہ دیتے ہیں اور معاعدہ بھی نیب نے یکطرفہ منسوخ کیا تھا تو براڈشیٹ والے یہ کیس جیت گئے اور نیب کے برطانیہ کے اثاثے منجمد کر دیئے جس کی وجہ نیب کو ساڑھے چار ارب دینے پڑھے ۔
1999 سے آج تک نیب کے تقریبا سات سربراہ جا چکے ہیں اور یہ آٹھویں موجود ہیں یہ کیس زرداری حکومت میں اور نواز حکومت میں بھی چلتا رہا اور اب جاکے فصیلہ ہوا اس لیے اسکا زمدار اس حکومت یا اس نیب چیف کو ٹھرانا غلط ہے کسی ایک حکومت یا شخص کی غلطی کا ذمہدار سب کو نہیں ٹھرایا جاسکتا ۔
تحریر::ملک جوہر