گزشتہ روز اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے الیکشن کمیشن کے باہر ایک احتجاجی ریلی نکالی جس میں انہوں نے حکمران جماعت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ دعویٰ کیا کہ حکمران جماعت نے بھارت اور اسرائیل سے فنڈنگ لی ہے جس کی بنا پر انہوں نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے لہذا انہیں نااہل قرار دیا جائے تو دوسری طرف اسی طرح کے ملتے جلتے الزامات حکومتی وزراء کی جانب سے لگائے گئے اور حکومتی وزراء نے حکمران جماعت کو کلین چٹ دی اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے چالیس ہزار اکاؤنٹس کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کروا دی ہیں اب اپوزیشن کی باری ہے کہ وہ اپنی فنڈنگ کا حساب دے.
فارن فنڈنگ کا کیس لگ بھگ چھ سال پرانا ہے اور یہ پی ٹی آئی کے منحرف ممبر اکبر ایس بابر کے الزامات کی بنیاد پر ہے جو کہ چھ سال سے پی ٹی آئی اس کیس کو لٹکا رہی ہے مختلف حیلے بہانوں سے دوسری طرف اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کو بھی اس کیس کا سامنا ہے اور الیکشن کمیشن نے دونوں بڑی جماعتوں کو بھی نوٹسز جاری کیے ہوئے ہیں تاحال انکی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا اور آج وزیر اعظم نے فارن فنڈنگ کیس کی کارروائی ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے.
فارن فنڈنگ بہر حال ایک حساس معاملہ ہے اگر واقعی پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ایسی مشکوک فنڈنگ حاصل کرتی رہی ہیں تو یہ نہ صرف ان جماعتوں کے لیے ایک شرمناک بات ہو گی بلکہ ملک پاکستان کی بھی بدقسمتی ہو گی کہ اپوزیشن کی دونوں جماعتیں جو ماضی میں کئی بار عنان اقتدار سنبھال چکی ہیں اور موجودہ حکومتی جماعت پاکستان کے دشمنوں سے فنڈنگ لیتی رہی ہیں اور اگر خدانخواستہ ایسا کوئی ثبوت مل جاتا ہے جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ فلاں جماعت مشکوک رقوم لینے میں ملوث رہی ہے تو اس جماعت پہ پابندی لگنے کے وسیع امکانات ہیں. فیصلہ جو بھی آئے یہ تو ہے کہ تینوں بڑی جماعتوں کی جان اسی طوطے میں ہے
دوسری جانب کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت اپوزیشن کے احتجاج کو کیش کر رہی ہے کیونکہ کہ غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو اپوزیشن کے احتجاج کا ایجنڈا نہ تو عوامی مسائل ہیں نہ معیشت کی بدحالی ہے اور نہ ہی ملکی ترقی سے وابستہ کوئی بات اپوزیشن اپنے خلاف چلنے والے کیسز میں ریلیف لینے کے لیے حکومت پر دباؤ بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور دوسری طرف آئے دن بیک ڈور رابطوں کی خبریں بھی آ رہی ہیں جن سے یہ تاثر تقویت پکڑتا ہے کہ اپوزیشن صرف کرپشن کیسز میں ریلیف چاہتی ہے پہلے احتجاجی جلسے کیے استعفیٰ کمپین شروع کی جب استعفیٰ کمپین ناکام ہوگئی تو فارن فنڈنگ کیس کو بہانہ بنا کے الیکشن کمیشن کے سامنے دوکان سجا لی
دوسری جانب حکومت احتجاج کو اپنے حق میں کیش کر رہی ہے اپوزیشن رہنما جلسے میں حکومت پر تنقید کرتے ہیں تو حکومتی وزراء کی فوج ظفر موج اپوزیشن کو جواب دینے کیلئے لمبی لمبی پریس کانفرنس کرتے ہیں اور میڈیا بھی بھرپور کوریج دے رہا ہے اپوزیشن اور حکومت کی اس دھینگا مشتی میں حکومت کو یہ فائدہ مل رہا ہے کہ وہ کمال مہارت سے اپنی نالائقیاں چھپا رہی ہے اور یہ ہی لگ رہا ہے کہ جیسے اپوزیشن کے احتجاج کے علاوہ ملک میں سب امن سکون ہے حالانکہ کہ حکومت اپنی آدھی مدت پوری کر چکی ہے اور ابھی تک عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہے نہ مہنگائی پر قابو پایا جا سکا ہے نہ بدانتظامی پر نہ وزراء اور حکومتی لوگوں کی آپس کی دھڑے بندی عوامی مسائل جوں کے توں ہیں تھانہ کچہری پولیس ریفارم پٹواری کلچر بلدیاتی مسائل ضروریات زندگی کی آسان فراہمی آٹے چینی کی قیمتوں کے مسائل جو چیخ چیخ کر حکومت کی نالائقی بیان کر رہے ہیں کمال مہارت سے اپوزیشن اور حکومت کی لڑائی میں ان مسائل سے سب کی توجہ ہٹی ہوئی ہے
اور میڈیا کو بھی چاہیے کہ صرف ریٹنگ کے چکر میں ہی نہ رہے بلکہ اہم عوامی مسائل کو اجاگر کرے اور غریبوں مظلوموں کی آواز بنے بجائے اس کے کہ اپوزیشن کے کرپٹ ٹولے اور حکومت کے نالائق وزراء کی لمبی لمبی فضول پریس کانفرنسیں نشر کرتا رہے
Very good
آپ نے بہت اچھی تحریر لکھی ہے۔
بہترین ۔
G bilkul media ka boht aham role hota ha es my
Absolutely right????
بہت اچھا لکھا ہے۔پی دی ایم واویلا کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی.