ویسے تو ہر سال اہمیت کا حامل ہے. لیکن یہ سال یعنی 2020 اہمیت کے لحاظ اس دھائی کے تمام سالوں پر بازی لے گیا ہے. اس سال کو اگر سب سے عجب سال کہا جائے تو کوئی غضب نہیں ہوگا. کیونکہ شروعات سے ہی اس سال میں عجیب اور نئے کورونا نامی وائرس نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا.
یوں تمام دنیا کے ہوش اڑ گئے اور سب ممالک اس وائرس کے خلاف صف آراء ہوگئے. سب کی یہ خواہش تھی کہ کیسے اس وائرس کو ختم تو دور کم کیا جائے. کیونکہ یہ وائرس تمام دنیا میں جانی اور مالی نقصان کا باعث بن رہا تھا.
اس وائرس نے سپر پاور امریکہ سمیت دنیا بھر کے تمام ترقی یافتہ ممالک کو ہلا کر رکھ دیا تھا. لیکن جو ترقی پذیر ممالک تھے، وہاں اس وائرس نے بہت نقصان پہنچایا. جانی نقصان تو ہو رہا تھا لیکن ساتھ ساتھ مالی نقصان بھی ہورہا تھا. جس کی وجہ سے عام آدمی خاص طور پر پریشان تھا.
امریکہ جیسے ملک میں لوگوں کو روزگار سے نکالا جا رہا تھا. گو کہ یہ سال غریب کے لئے تو موت کا سبب بن رہا تھا. کیونکہ جو وائرس سے بچ رہا تھا وہ بھوک سے مر رہا تھا. لحاظہ معاشی ترقی اور خوشحالی کے اعتبار سے یہ سال بہت تباہ کن رہا ہے
یہ سال ہمیشہ تلخ یادوں کے ساتھ یاد رہے گا. لیکن انھی تلخ یادوں کے ساتھ ساتھ کچھ مسرت بھرے لمحات بھی شامل ہیں. اس سال نے سب کو حیران کر دیا ہے. کیونکہ وہ دنیا جو کہ معاشی، معاشرتی اور جوہری حوالے سے دست گریبان تھی.
نیز جو ممالک دوسرے ممالک کو گرانے میں محو تھے اور جنھیں اپنی طاقت پر ناز تھا. اس سال نے ان ممالک کو یہ گہرا پیغام پہنچایا ہے کہ “جو آج صاحب مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے” . نیز یہ کہ ہواؤں کا رخ بھی بدل کر رکھ دیا ہے. اس سال کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس سال مشکلات کا سامنا صرف غریب ہی کو نہیں، بلکہ امیر بھی اس سال اتنا ہی پریشان رہا ہے.
کیونکہ اس سال کورونا نے جو موت کا رکس دکھایا. اس سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا. جس کی وجہ سے یہ سال دکھ بھرا سال رہا ہے. اس سال مذہبی رہنما، ادیب، شاعر، ڈاکٹر، علمی شخصیات، فلمی ستارے گو کہ شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی کئی بڑی شخصیات کو ہم نے کھو دیا.
لیکن اگر پاکستانی عینک لگا کر ہم اس سال کا معائنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سال ہمارے لئے بھی اتنا ہی حیرت انگیز رہا ہے جتنا کہ باقی دنیا کے لئے رہا ہے. اس سال نے باقی ممالک کی طرح پاکستان کو بھی یہ پیغام دیا کہ صحت پر انویسمنٹ اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ دفاع یا معیشت پر ہے.
کیونکہ صحت سے بڑی ﷲ کی کوئی نعمت نہیں ہے. اس بات کا تدارک بھی ہمیں اس سال ہوگیا ہے. یہ سال پاکستان کے لئے پھر بھی کم نقصان کا باعث بنا. کیونکہ ہم الحمد اللہ جانی اور مالی حوالے سے بڑے نقصان سے بچ گئے. یقیناً اس کامیابی میں حکومت کا بھی حصہ شامل ہے.
لیکن اس میں اصل کامیابی ان خدا ترس لوگوں کی ہے جنھوں نے کورونا کے دوران عام اور غریب عوام کے لئے اپنے لنگر کھانے کھول دیے. یوں عوام بے روزگار بھی ہوئی، لیکن ان کے لئے کھانے پینے کا احتمام ہر حوالے سے یقینی بنایا گیا . یقیناً جو بھی لوگ اس کار خیر میں شریک رہے وہ ﷲ کے خاص لوگ ہوں گے. اور اس کا اجر بھی ﷲ ہی انھیں عطا فرمائے گا.
اس سال ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کیسے تعلیم درس گاہوں سے گھر تک منتقل ہوگئی. طلباء و طالبات نے اس سال فزیکل سے آن لائن تعلیم کی طرف سفر کیا. جو کہ طلباء اور طالبات کے لئے ایک نیا تجربہ تھا. جس سے کئی طلباء و طالبات تو بہت مطمئن رہے. لیکن جو آن لائن کی سہولت سے محروم رہے وہ اس آن لائن تعلیم سے بھی محروم رہے.
جس سے اس سال تعلیمی میدان میں جو خلا پیدا ہوئی ہے. اس کی بھرپائی آئندہ چند سالوں میں بھی پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے. خیر جہاں لوگوں نے اپنا روزگار کھویا تو کہیں اسی آن لائن کی سہولت نے لوگوں کو نیا روزگار فراہم کیا. جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ ورک فور ہوم بھی ممکن ہے. یوں بھی رزق کمایا جا سکتا ہے.
اس سال مذہبی حوالے سے بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا گیا اور مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب نے اپنے مذہبی تہوار سادگی سے منائے.
اس سال جو سب سے بہتر ہوا وہ یہ تھا کہ شادیاں بھی سادگی سے انجام دی گئیں . اور اس سال ایک باپ کو اپنی بیٹی کو الوداع کرنے کے لئے زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑی. خیر یہ تو اس سال کی بہترین روش رہی ہے. جس کو آئندہ بھی جاری رکھنے کی ضرورت ہے. کیونکہ اسی میں سب کا فائدہ بھی ہے.
خیر 2020 کا سورج تو کئی دردناک، دلخراش واقعات کے ساتھ اور چند مسرت بھرے لمحات کے ساتھ غروب ہوگیا ہے . نیز آج کا نیا سورج نئی طلوع آفتاب کے ساتھ نئی کرنیں اس دنیا پر ڈالے گا. اس امید کے ساتھ کہ جو کچھ بھی سال 2020 میں ہوا وہ اس نئے سال میں نہیں ہوگا. ﷲ عزوجل سے یہ دعا ہے کہ یہ سال پاکستان اور تمام دنیا بالخصوص میرے اور آپ کے لئے مسرت اور کامیابیوں کا باعث بنے. آمین
اس سال کے اختتام پر، جو کہ ایک دھائی کا اختتام بھی ہے. میں ایک شعر کے ساتھ اس سال کی اخری تحریر کو مکمل کروں گا کہ؛
کچھ خوشیاں کچھ آنسو دے کر ٹال گیا
جیون کا اک اور سنہرا سال گیا
تحریر : ہمایوں شاہد