آج کا دن بہت اہم تھا بنو ہاشم کے مکان کے سامنے بہت سے لوگ جمع تھے اور دھیمے دھیمے گفتگو کر رہے تھے کہ عبدالمطلب کے یہاں دسویں بیٹے نے جنم لیا ہے۔ آج منت پوری کرنا لازم ہو گئ ہے جو انہون نے نہ جانے کس جذبے کے تحت کعبہ کی دیوار کے سائے میں مانی تھی۔ اہلِ مکہ جہاں بہت خوش تھے وہاں کچھہ پریشان بھی تھے کہ اب منت پوری کرنا لازم ہو گئ ہے۔عبدالمطلب خانہ کعبہ میں پریشانی میں مبتلا کچھ سوچ رہے تھے کہ اب منت پوری کرنا ہےجس نومولود بچے کی شکل تو نے دیکھی بھی نہیں لیکن عقل کا اصرار تھا کے اے سیدالقریش اپنی منت پوری کرنا آپنے عہد سے پھر نہ جانا۔یہ مردوں کا شیوہ نہیں ہے۔مجمع میں قیس ابن ساعدہ، نوفل قریشی، عمر بن نوفل بھی شامل تھے۔عبدالمطلب نے اک نظر سب پر ڈالی وہاں عبدالمطلب کے تمام فرزند موجود تھے۔حارث، زبیر، عمران، ابو طالب، حمزہ، مغیرہ، ضرار، ابو لہب، عبداللہ بھی تھااور آپ نے کہا کہ قرعہ اندازی کا اہتمام کیا جائے۔ سارا مجمع حیرت سے انہیں دیکھنے لگا۔ مجمعے میں سے کسی نے کہا کہ قرعہ اندازی سے پہلے دسویں بیٹے کا نام تجویز کیا جائے۔عبدالمطلب اچانک بولے کہ عباس بن عبدالمطلب دسویں بیٹے کا نام ہے پھر قرعہ اندازی میں سارے بیٹوں کے نام ڈالے اب قرعہ نکالنے والے ہر سب کی نظر جمی ہوئی تھی قرعہ نکالنے والے نے نام پکارا عبداللہ بن عبدالمطلب یے نام سنتے ہی سارے لوگ سناٹے میں آ گئے۔عبداللہ کے بھائی حارث نے کہا کہ قرعہ دوبارہ نکالا جائے۔کیونکہ عبداللہ پر سبھی جان نچھاور کرتے تھےایک بار پھر قرعہ نکالنے والے نے نام پکارا عبداللہ بن عبدالمطلب۔قیس بن ساعدہ نے کہا کہ قرعہ دوبارہ نکالا جائےآخری بار پھر قرعہ نکالنے والے نے نام پکارا عبداللہ بن عبدالمطلب اب کی بار مجمع سے چیخ و پکارسے رونے کی آوازیں آنے لگیں سارا مجمع افسردہ تھا.قیس بن ساعدہ اور حارث زبیر سبھی نے کہا کہ بابا جان اس منت کو پوری نہ کریں آپ اپنا فیصلہ بدل دیں۔پسینہ عبدالمطلب کی پیشانی پر آگیا تھا۔عبدامطلب نے کہا کہ عبداللہ کا نام آنے کے بعد ہی کیوں فیصلہ بدلنے کا کہا آپ سب نے۔اس سے قبل کسی نے نہیں کہا منت پوری نہ کریں؟حارث نے کہا کیوں کے ہمیں اپنے بھائی عبداللہ سے بہت پیار ہے عبد المطلب نے کہا کہ بھائی سے پیار ہے اپنے بابا جان کے عہد سے نہیں تمہارا باپ عہد شکن کہلائے گا۔بھائیوں نے کہا اے بابا جان فیصلہ بدل دیں .ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں ہم آپ پر کوئی حرفِ نہیں آئے دیں گے۔ اب ایک باپ بول رہا تھاکہ قرعہ میں عبداللہ کا نام نکلا ہے اب منت پوری کرنا مجھ پر لازم ہو گئ ہے۔عبداللہ ہجوم سے نکل کر آ ے اور کہا بابا جان میں حاضر ہوں آپ اپنا خدا سے کیا ہوا عہد پوری کریں۔ سادے مجمع سے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔عبداللہ کو قربان کرنے کے لیے لیٹا دیا ہے وہ جگہ تھی جہاں مدتوں قبل حضرتِ ابرہیم علیہ السلام نے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کیلئے لیٹا یا تھاعبد المطلب چھری کی دھار بنانے لگے اتنے میں مجمع سے آواز آئی اے سیدالقریش زرا ٹھہر جائیں۔ عبد المطلب کے قدم ایک سست پڑ گئے اور روکنے والے کی جانب غور سے دیکھا یہ نوفل قریشی تھے اچانک نوفل قریشی کو اک راہ نظر آئ لہزا انہون نے کہا کہ بنو عامر میں ایک کاہنہ رہتی ہے جو غیب کا علم رکھتی ہے۔ کیوں نہ سارا معاملہ اس کو بتایا جائے نوفل قریشی کی بات کی تائید کرتے ہوئے سبھی بنوں عامر اس کاہنہ کے پاس گئے اور سارا معاملہ اس کو بتایا۔ وہ کاہنہ آنکھیں بند کر کے کچھ پڑھنے لگی سب لوگوں کی نظر اس کاہنہ پر تھی جو مسلسل کچھ نہ کچھ بڑبڑا رہی تھی۔ پھر کاہنہ نے اچانک آنکھیں کھولی اور بولی کہ قرعہ اندازی دوبارہ کی جائے اس بار قرعہ میں 100 اونٹوں کی قربانی شامل کرولہذا قرعہ اندازی کا دوبارہ سے اہتمامِ کیا گیا۔ ایک بار پھر سے قرعہ اندازی ک کی گئی اب قرعہ نکالنے والے نے قرعہ نکالا اور کہا کے اس بار قرعہ سو اونٹوں کا تین بار قرعہ نکالا سو اونٹوں کا نکلا ہے۔ سارا مجمع خوشی سے ارشاد تھا عبدالمطلب کے تمام فرزندوں کے چہرے سے خوشی عیاں تھی۔پھر حضرت عبد المطلب نے سو اونٹ عبداللہ کے بدلے قربان کیے۔عبدالمطلب کے دس فرزند موجود تھے اور منت بھی پوری ہو گئی تھی۔
(قسط اول) نام ونسب،خاندان اصل نام عثمان تھا، کنیت ابو عبداللّٰہ اور ابو عمر تھا جبکہ لقب ذوالنورین تھا۔ آپ کے والد کا نام عفان جبکہ والدہ کا نام ارویٰ تھا۔ والد کی طرح سے سلسلہ نسب یہ ہے، عثمان بن عفان بن ابی العاص ابن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی القرشی جبکہ والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب یہ ہے، ارویٰ بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس بن عبد مناف۔ اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا سلسلہ پانچویں پشت میں عبد مناف پر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی نانی بیضاء ان الحکیم حضرت عبداللہ بن عبد المطلب کی سگی بہن اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں اسلیے وہ ماں کی طرف سے حضرت سرور کائنات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار تھے (فتح الباری کتاب المناقب)۔ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو ذوالنورین (دو نورو والا) اسلئے کہا جاتا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے ان کے نکاح میں آئیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا خاندان جاہلیت کے زمانے میں غیر معمولی وقعت واقتدار رکھتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جداعلی امیہ بن شمس قریش کے سرداروں میں تھے۔ حلفاۓ بنو امیہ اسی امیہ بن شمس کی طرف سے منسوب ہوکر’امویین’ کے نام سے مشہور ہیں، عقاب یعنی قریش کا قومی علم اسی خاندان کے قبضہ میں تھا، جنگ فجار میں اسی خاندان کا نامور سردار حرب بن امیہ سپہ سالار اعظم کی حیثیت رکھتا تھا، عقبہ بن معیط نے جو اپنے زور، اثر و قوت کے لحاظ سے اسلام کا بڑا دشمن تھا وہ اموی تھا۔ اسی طرح ابو سفیان بن حرب جنہوں نے قبول اسلام سے پہلے غزوہ بدر کے بعد تمام غزوات میں رئیس قریش کی حیثیت سے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا مقابلہ کیا تھا، اسی اموی خاندان کے ایک رکن تھے، غرض حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا خاندان شرافت، ریاست اور غزوات کے لحاظ سے عرب میں نہایت ممتاز تھا، بنو ہاشم کے سوا دوسرا کوئی خاندان اس کا ہمسر نہ تھا۔حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ واقعہ فیل کے چھٹے سال یعنی ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے47 برس قبل پیدا ہوئے، بچپن اور سن رشد کے حالات پردہ خفا میں ہیں، لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے عام اہل عرب کے خلاف اسی زمانہ میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا، عہد شباب کا آغاز ہوا تو تجارتی کاروبار میں مشغول ہوئے اور اپنی صداقت، دیانت اور راست بازی کے باعث غیر معمولی فروغ حاصل کیا۔