حضرت ادریس علیہ السلام کی زندگی
ایک حدیث میں ہے کہ آدم اور شیس کے بعد ادریس علیہ السلام پہلے نبی ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ادریس پہلے نبی ہیں ۔جنہوں نے قلم کے ذریعے لکھا اور لوگوں کو کتابت سکھائی۔ حافظ ابن کثیر نے ان کا حلیہ کچھ یوں بیان کیا ہے پورا قدوقامت، خوبصورت، خوبرو، گھنی داڑھی ،عمدہ اوصاف کے مالک ،چوڑے کندھے، مضبوط ہڈیاں، دبلے پتلے، چمکدار آنکھیں، خاموشی پسند ،گفتگو مطلب کی، چلتے ہوئے نظر نیچی، انتہائی فکر و غوض کے عادی ،غصے کے وقت سخت غضبناک، باتیں کرنے میں شہادت کی انگلی سے بار بار اشارہ کرنے کے عادی۔ ادریس علیہ السلام شیس علیہ السلام کی شریعت پر عمل پیرا رہے ۔کیونکہ آپ رسول بھی تھے۔ اس لیے اللہ کی طرف سے ان پر مستقل شریعت نازل ہوئی۔ جس کی تشریح و تفسیر کر کے لوگوں کو احکام الٰہی سکھاتے۔
جہاد کا حکم
آپ نے جب دیکھا کہ مفسدین ایمان والوں پر ظلم و زیادتی کر رہے ہیں۔ ان کافساد بڑھتا جا رہا ہے اور سمجھانے کے باوجود یہ لوگ باز نہیں آرہے تھے تو انھوں نے اپنے پیروکاروں کو جہاد کا حکم دیا۔ آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔ غنیمتیں حاصل کی اور دشمنوں کو قید کیا ۔لیکن غنیمیتیں اور قیدی ان کے لئے حلال نہیں تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے رسول ہیں جن کے لئے غنیمتیں حلال کی گئی۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ جہاد سب سے پہلے ادریس علیہ السلام نے کیا۔
حضرت ادریس علیہ السلام کی سیرت
اللہ تعالی نے آپ کی سیرت کے بارے میں اپنی کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے!
مثلا سورۃ مریم آیات56اور 57 میں ار شاد ہوتا ہے۔” اور اس کتاب میں ادریس کا بھی ذکر کرو وہ بھی نیک کردار نبی تھے ہم نے انہیں بلند مقام پر اٹھایا”
ان کے بلند مرتبے کے بارے میں بخاری اور مسلم میں حدیث موجود ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” میں نے معراج کی رات چوتھے آسمان پر ادریس علیہ السلام سے ملاقات کی وہ چوتھے آسمان پر بلند مقام پر فائز تھے”
مختلف روایتیں
ابن جریر نے ایک روایت بیان کی ہے وہ روایت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اللہ تعالی کے ارشاد سے کیا مراد ہے؟ اس کا کیا مفہوم ہے؟ ابن جریر کے علاوہ دیگر بڑے بڑے مفسرین اور محققین نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے۔ لیکن اس کی کوئی مستندسند نہیں مل سکی۔ وہ روایت یہ ہے ابن ابی حاتم وغیرہ نے اسی روایت کو حلال بن یسار سے بیان کیا وہ کہتے ہیں۔ میری موجودگی میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہا نے قاب سے پوچھا کے ادریس علیہ السلام سے متعلق اللہ کے اس قول “ہم نے انہیں بلند مقام پر اٹھا لیا” کا کیا مطلب ہے؟ تو قاب نے جواب دیا اللہ نے ادریس علیہ السلام پر ایک مرتبہ وحی نازل فرمائی “اے ادریس تمام اہل دنیا جس قدر روزانہ نیک عمل کریں گے ان سب کے برابر میں تمہیں ہر دن اجر دوں گا”۔ آپ نے یہ سنا تو خواہش محسوس ہوئی کہ میرے اعمال میں روزانہ اضافہ ہو ۔اس لیے عمر کا حصہ طویل ہو جائے تو اچھا ہے۔ انہوں نے وحی الہی اور اپنے اس خیال کو ایک رفیق فرشتےپر ظاہر کر کے کہا اس معمالے میں موت کے فرشتے سے گفتگو کرو تاکہ میں نیک اعمال کا زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کر سکوں اس فرشتے نے جب یہ سنا تو آپ کو اپنے بازو پر بیٹھا کر لے اڑا۔
وفات
جب وہ فرشتہ آپ کو لے کر چوتھے آسمان پر پہنچا۔ تو موت کا فرشتہ زمین پر آنے کے لئے اتر رہا تھا ۔وہی دونوں کی ملاقات ہوگی۔ تو اس فرشتے نے موت کے فرشتے سے آپ کے بارے میں بات کی موت کے فرشتے نے دریافت کیا۔ ادریس علیہ السلام کہاں ہیں۔ اس نے کہا میری پشت پر موت کا فرشتہ کہنے لگا مجھے اللہ کی طرف سے حکم ملا ہے کہ چوتھے آسمان پر آپ علیہ السلام کی روح قبض کروں۔ اس لیے میں حیرت میں تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ علیہ السلام تو زمین پر ہیں چنانچہ موت کا فرشتہ آپ علیہ السلام کے پاس آیا ان سے اجازت طلب کی اور ان کی روح قبض کرلی۔ اس طرح آپ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔