ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں اشفاق اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا اشفاق کی نوکری شہر میں تھی جس کی وجہ سے وہ ہفتے کے پانچ دن شہر اور دو دن گاؤں اپنے بیوی بچوں کے پاس رہتا ایک دن وہ شہر میں کام کررہا تھا کہ اس کو اچانک خبر ملی کہ ملک میں وبائی بیماری آگئی ہے جس کی وجہ سے ملک کے تمام ادارے بند ہوگئے ہیں ا شفاق بہت پریشان ہوگیا کہ اگر اسی طرح کاروبار بند رہے تو میرے بیوی بچے بھوک سے مرجائے گے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ریلوے اور بس اڈے وغیره بھی بند تھےجس کی وجہ سے اشفاق گاؤں اپنے بیوی بچوں کے پاس بھی نہیں جاسکتا اس کو کچھ سمجھ نہ آئی کے کیا کروں محلے کے صدر نے غریب لوگوں کو کھانا دینے کا فیصلہ کیا صدر اپنے خاص بندوں کو بھیج کر ان عریب مزدوروں تک کھانا پہنچاتا کھانا کم اور لوگ زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی اشفاق کو کھانا ملتا اور کبھی نہیں ایک دن ایک نیا بنده اسی محلے میں کچھ ضرورت کی ااشیاء دے رہا تھا غریب لوگ بہت خوش تھے اور ان کی لمبی لمبی لائنیں راشن لینے گھڑی تھیں اور اشفاق سب سے آخر میں تھا اس کو یہ ہی ڈر تھا میرا نمبر آنے تک سب ختم نہ ہو جائے کیونکہ اشفاق نے دوتین دن سے کچھ کھایا بھی نہی ں ہوا تھا اور بھوک کی وجہ سے اس سے ٹھیک سے کھڑا بھی نہیں ہوا جارہا تھا آخرکار اشفاق کا نمبر آیا تو کارکن نے اس کو اشیاء دی تو اشفاق بھوک پر کابو نہ دکھ سکا اور فوری ایک نوالا منہ میں ڈالنے لگا تو کارکن بولا کہ تھوڑی دیر صبر کرو مجھے تمہارے ساتھ کچھ تصویریں لینی ہیں یہ کہہ کر وہ تصویریں لینے لگ گیا اور دل ہی دل میں سوچنے لگ گیا کہ میں یہ تصویریں سوشل میڈیا پر ڈال دو گا تاکہ لوگ یہ دیکھ کر میری تعریف کرے اور سوچے کے یہ کتنا نیک دل انسان ہے جو اس مشکل وقت میں لوگوں کی مدد کررہا ہے اور آنے والے الیکشن میں ووٹ لے کر کامیابی حاصل کرسکتا ہوں اور دوسری طرح اشفاق دل ہی دل میں شرمنده ہورہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ بھوک بھی کیا چیز ہے انسان سے کیا کیا کرواتی ہے امیر تو بس غریب کی بھوک کا مزاق اُڑا سکتا ہے اس کی مدد نہیں کرسکتا اور اگر مرد کرتا بھی ہے لو اپنے فائدے کے لیے
Thursday 7th November 2024 10:45 am