ہم اپنی ساری زندگی دو چیزوں کی کسوٹی پر گزارتے ہیں۔ جن میں پہلی “سمجھوتا کرنا” اور دوسری”مان لینا یا تسلیم کر لینا” ہیں۔سمجھوتا چاہے حالات سے ہو یا لوگوں سے اس کی مدت قدرے کام ہوتی ہے، یہ کسی بھی وقت ختم ہو سکتاہے۔ کبھی کبھی دیر تک چل سکتاہے مگر اس کا المیہ یہ ہے کہ یہ عارضی ہوتاہے۔
جبکہ زندگی میں دوسری چیزحالات، لوگوں اور حتی کے رویوں کو جیسے بھی ہوں قبول کر لینا ہوتاہے۔ یہ چیز پیدا ہونا مشکل ہوتی ہے مگر اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس سے زندگی سہل ہو جاتی ہے۔ ہم حالات کے ساتھ ساتھ جب دوسروں کو ان کے رویوں سمیت تسلیم کر لیتے ہیں تو ہم خود بھی بدلنے لگتے ہیں۔ ہم اپنی سوچ ویسے ہی ڈھالنے لگتے ہیں۔مارچ 2020میں “کرونا” اپنے عروج کی طرف تھا۔ دیکھتے دیکھتے پاکستان سمیت پوری دنیا رک کے رہ گئی تھی۔ پاکستان میں ایسا لگ رہا تھا جیسے ہر محکمہ وینٹی لیڑ پہ ہے۔ تمام طرح کی سرگرمیاں تھم سی گئی تھیں۔ملک کے وزیراعظم تک ہفتے میں دو دو بار میڈیا میں آ کر ماسک دکھا دکھا کر “کرونا” سے بچنے کے لیے گزارشات کرتے رہے۔
ہم آخر ہم تھے۔ ہم نے کیا کیا؟
ہم نے حسبِ روایت وقتی حالات سے سمجھوتا کرتے چلے گئے۔ نو ماسک نو انٹری کی تحریک اور پیغام کو ہم نے بغیر ماسک انٹری ہی انٹری میں بدل دیا۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کسی ڈاکٹر کے پاس، ہسپتال اور سکول میں داخل ہوتے ہوئے اگر گیٹ پہ کھڑا سکیورٹی گارڈ کسی کو ماسک لگائے بغیر انٹری سے روک دیتا تھا تو وہ شخص کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگتا تھا اور تکرار کرکے اگر ماسک پہن بھی لیتا تو بھی ماسک کے اندر بڑبڑاتا رہتا تھا۔یہ سب کیا تھا؟ یہ سب سمجھوتا تھا جو ہم ہر آنے والے دن، ہفتے اور مہینے کے ساتھ کرتے تھے کہ بس اس ہفتے یا مہینے بعد “کرونا” سے جان چھوٹ جائے گی۔ مگر آپ دیکھ لیں دوبارہ مارچ کے قریب آ لگے ہیں مگر “کرونا” آج بھی ہمارے حواص پہ سوار ہے ۔ کیوں؟ کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے اور حقیقت سے سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا بلکہ اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہم تب ہی اس سے ہر ممکنہ احتیاط کر نے کے لیے تیار ہو سکیں گے۔
ہمیں یہ مان لینا ہو گا کہ اب ہمیں اس کے ساتھ ہی چلنا ہوگا، اس کی حقیقت کو مان لینا ہو گا کہ یہ آسانی سے جان چھوڑنے والا نہیں ہے۔ جو چیز ایک سال تک 21ویں صدی میں بھی پوری دنیا کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے وہ اتنی جلدی اور آسانی سے کیسے ختم ہو سکتی ہے۔ جس دن ہم اس حقیقت کو مان لیں گے اس دن ہم اسے مذاق نہیں سمجھیں گے اور ماسک لگانا اپنے لیے لازمی کر لیں گے۔ہمارا تعلق چاہے جس شعبے کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو ہم کبھی بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ہزاروں سے لے کر عربوں کھربوں کا بزنس کرتے ہیں اور ایک ہی ٹارگٹ ہوتاہے کہ ہمیں فائدہ کیسے اور کتنا ہو گا۔
مگر ہم اپنی انمول زندگی کو اتنا بے معنی سمجھ بیٹھے ہیں کہ دس روپے کا ماسک والا سودا ہمیں نقصان میں لگتا ہے یہ سوچ کر کے کیا مصیبت ہے کہ ہر بار ہمیں دس روپے کا ماسک خریدنا پڑتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہسپتالوں میں ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں حتیٰ کہ اپنے پیاروں تک کو کھو دیتے ہیں مگر محض دس روپے کا ماسک پہن کر احتیاط نہیں کر سکتے۔آج ہمیں یہ بات مان لینا ہو گی کہ اب “کرونا” سے احتیاط مجبوری ہی نہیں ضروری بھی ہے۔