Skip to content

سفر عذاب کا ٹکڑا

*سفر عذاب کا ٹکڑا*

سفر کو عذاب کا ٹکڑا کیوں کہا گیا ہے سفر میں آدمی کسی پر بھروسہ نہیں کرتا کیونکہ کسی سے جان پہچان جو نہیں ہوتی ہے اور آدمی کی خواہش یہ ہی ہوتی ہے کہ یہ سفر جلد از جلد ختم ہو جائےجیسے آدمی بیمار ہو یا کوئی تکلیف پہنچے تو انسان کہتا ہے کہ یہ تکلیف یا بیماری مجھ سے جلد از جلد ختم ہو جائے اسکے ٹلنے کی دعائیں کرتا رہتا ہے
لیکن اگر اسلامی رو سے دیکھا جائے تو حدیث شریف میں آتا ہے کہ دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر رہتا ہے کیونکہ مسافر کا سفر ختم ہو جائے گا اگرکہیں سفر پہ جا رہا ہے تو وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے گا –

ایسے ہی انسان دنیا میں ایک مسافر کی طرح ہے اور اسکی منزل مقصود آخرت ہے تو اگر اس حساب سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آدمی سفر میں جاتا ہے تو اپنی مکمل تیاری کر کے جاتا ہے اور ساتھ جتنا سامان ضرورت کا ہوتا ہے اتنا ہی لے جاتا ہے اور مکمل تیاری کر کے جاتا ہے -اسی طرح انسان کو دنیا میں مسافر کی طرح رہنا چاہیئے کیونکہ اس کا یہ زندگی کا سفر ایک نہ ایک دن ختم ہو جانا ہے تو یہ بھی ابدی زندگی کی جانب ایک سفر ہے تو اس کی بھی انسان کو مکمل تیاری کرنی چاہئے اور جتنا زیادہ ہو سکے نیک اعمال کا سامان لے کر چلے

سفر اور عذاب میں مشقت ہوتی ہے لیکن دونوں مشقتوں میں فرق ہے عذاب کی مشقت اس دنیا کی مشقت سے کئی گنا بڑھ کر ہے اور سفر کی مشقت عذاب کی ایک جھلک ہے اسی بنا پر سفر کو عذاب کا ٹکڑا کہا گیا ہے-اللہ ہمیں تمام پریشانیوں سے محفوظ فرمائے آمین

حافظ سیف الرحمن چاند

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *