اماں لڑکیوں نے ایسا کیا کیا ہے کہ وہ کھل کے جی بھی نہیں سکتی تم اور کس طرح سے جینا چاہتی ہوکسی چیز کی کمی نہیں تمہیں ہر بات کی اجازت ہے فیشن تم کرتی ہو ٹی وی تم دیکھتی ہو خاندان بھر میں تمہارا آنا جانا ہے اور کیا چاہیے ۔آسیہ تو پھر یہ باتیں کیا ہیں ہمارے خاندان میں بیٹیوں کے دل نہیں دماغ جن میں پہلے دن سے یہ بات بھر دی جاتی ہے تابعداری سے اپنے خاندان کی عزت اور وقار کا خیال رکھنا ہے
سمجھ آئی یہ بات کہہ کر اماں چلی جاتی ہے پھر آسیہ اپنے کمرے میں حمزہ کا خط پڑھنے لگیں حمزہ خط میں کہتا ہے مجھے تمہاری مجبوریوں کا اندازہ ہے تم کتنی مشکل کے ساتھ اپنے بھائی دانی کے ہاتھ خط بھیجواتی ہو مگر میں کیا کروں دل کے ہاتھوں مجبور ہو تمہیں دیکھنے تم سے بات کرنے کے لیے ترستا رہتا ہوں اور جب کچھ نہیں کر سکتا میری بے بسی میرے لفظوں میں ڈھل جاتی ہے- پلیز آسیہ میری دیوانگی کو جنون نہ بننے دینا میں عمر بھر بھی تمہارا انتظار کر سکتا ہوں آخری بار تم کو پنک سوٹ میں دیکھا تھا 28 دن گزر گئے کیا چاند کی طرح مہینے میں ایک بار ہی جھلک دکھلاو گی اگر ممکن ہو تو کل صبح گیارہ بجے بالکونی سے آنے کی کوشش کرنا کیوں کہ چاندتو انتیس دن کا بھی ہوتا ہے کیوں ہوتا ہے نہ آسیہ مسکراتے ہوئے خط کو لپٹتی ہوئی سینے سے لگا لیتی ہے صبح کے وقت آسیہ دانی بھائی کے کمرے میں جا کر دانی کو آواز دیتی ہے دانی اٹھو صبح ہو گئی ہے ۔دانی۔ کیا ہو گیا آپی سونے دو نہ آسیہ کہتی ہے ۔اور کتنا سوگے آسیہ کھڑکی سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہتی ہے اٹھو گھر میں سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں دانی کہتا ہے اوہو چھٹی کے دن بھی آرام نہیں کرنے دیتے۔
آسیہ ۔دانی کی طرف آکر کہتی ہے سنو میرا ایک کام کرو گے دانی کام آپ کا کام تو شام کو ہوتا ہے یہ آج کام شام میں نہیں ہے صبح میں ہی ہے حمزہ آج اسی درخت کے نیچے آئیں گے دانی اوہو اچھا تو جی مجھے جلدی اٹھا دیا لیکن پتہ ہے میں تم سے اپنے دل کی ہر بات کرتی ہو دانی لائیں کیا دینا ہے آسیہ دانی کوخط دے کر کہتی ہے لو سنبھال کے رکھنا ابھی حمزہ کے آنے میں ایک گھنٹہ باقی ہے دانی آپ بالکل فکر نہ کریں آپ بس ناشتہ بنائیں میں بس پانچ منٹ میں آیا آسیہ بیڈ پر بیٹھ کر مسکرا رہی ہوتی ہے دانی چلا جاتا ہے دانی خط لےکر اسی درخت کے نیچے جاتا ہے ادھر حمزہ گاڑی سے نکل کر درخت کے نیچے انتظار کرنے لگتا ہے آسیہ کی امی اچانک کمرے میں داخل ہوتی ہے تو کیا دیکھتی ہے آسیہ شیشے کے آگے بیٹھ کر میکپ کر رہی ہوتی ہے پھر اماں چھت پر چلی جاتی ہے چھت پر کپڑے ڈالتے ہوئے حمزہ کو دیکھ لیتی ہے اچانک حمزہ کی نظر بھی ا امی پر پڑتی ہے حمزہ پریشان ہو جاتا ہے اور پھر گاڑی میں بیٹھ کر چلا جاتا ہے امی غصے سے نیچے آ کر آسیہ کو کہتی ہے یہ دروازہ بند رکھاکرو۔آسیہ۔اماں اتنی اچھی ہوا آتی ہے
یہ بند کرو گی تو گرمی ہو جائے گی امی سر ہلا کر کہتی ہے میں ابھی کسی کو میں نے ٹیرس کے سامنے کھڑے ہوئے دیکھا ہے امی کہتی ہے کہ یہ نہ ہو کہ نظر جگر کے پار ہو جائے امی کیا مطلب مطلب یہ کہ اپنا کمرہ چینج کر لواس دروازے سے ہوا کے علاوہ بدنامی کے صندیسے بھی آ سکتے ہیں سمجھیں یہ کہ کر امی کمرے سے باہر چلی جاتی ہے اور آسیہ پریشان ہو کر کھڑی رہے جاتی ہے دانی کی سانسیں اوپر نیچے ہو رہی تھی اور گھر آکر کونے میں بیٹھ کرکہتا ہے آج آپی نےدوڑ لگا دی اور حمزہ بھائی بھی آتے ہی بھاگ گئے میں ان کے پیچھے گیا بھی مگر اتنے میں دانی کے جیب سےخط نکال کر پڑھنے لگتا ہے خط میں لکھا تھا ڈیر حمزہ میں کئی دن سے سوچ رہی تھی اب خطوط کا سلسلہ بند ہوجانا چاہیے پتہ ہے دو سال ہو گئے ہیں دانی کو ہمارےخط لیجاتے ہوئے پتہ ہے اب دانی بڑا ہو رہا ہے مجھے اچھا نہیں لگتا اب ہم اسے اس مقصد کیلئے استعمال کریں حالانکہ وہ بہت سمجھدار ہے ہر بات کا علم ہے اسے اس کے باوجود اب میرا دل نہیں مانتا اتنے میں آسیہ آ جاتی ہے اور آتے ہی دانی سے پوچھتی ہے کیا ہوا تم حمزہ کو خط دے آئے نہ دانی نہیں وہ تو اتنا تیز نکل گۓ ہیں کہ میں ان تک پہنچ ہی نہیں سکا پتہ نہیں کہاں غائب ہو گئے آسیہ یہ کہتی ہے کہ اب وہ خط مجھے واپس کر دو یہ نہ ہو کہ وہ کسی اور کے ہاتھ لگ جائے دانی کہتا ہے وہ میں روڈ کے کنارے درخت کی ٹہنیوں میں چھپا کر آگیا ہوں ۔آسیہ ۔وہ کیوں چھپا کے آگئے ہو دانی اچھاآپ گھبرائیے مت میں ابھی جا کر لے آتا ہوں فورن جاؤویسے ہی مسئلہ ہو گیا ہے ایسا نہ ہو کہ کسی کو پتہ چلے ۔۔۔امی اور ابو چائے کےٹیبل پے
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . ابھی جاری ہے . بقیہ . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .