Skip to content
  • by

خامی بنی خوبی

شہر سے دور ایک گاؤں میں ایک بیوہ رہتی تھی، جو بہت غریب تھی۔ اس کے پاس مٹی کے دو گھڑے تھے جنہیں وہ روز صبح ایک لکڑی پر باندھے گاؤں سے دور نہر پر پانی بھرنے لے جاتی تھی۔۔ مگر ان میں سے ایک گھڑے کی نچلی سطح پر درار تھی، جس کے باعث بیوہ کے گھر پہنچنے سے قبل ہی پانی راستے میں ہی بہہ جایا کرتا تھا۔

گھر پہنچتے ہی ایک گھڑا ویسا کا ویسا بھرا رہتا، جبکہ دوسرا آدھے سے بھی کم باقی رہتا۔۔ٹوٹا ہوا گھڑا اپنی اس خامی کے باعث قدرے مایوس ہوچکا تھا اور اسے اپنی ذات سے نفرت ہونے لگی تھی کہ آخر کیوں وہ اپنے فرائض اس انداز میں سرانجام نہیں دے پاتا، جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔۔ مسلسل تین سالوں کی ناکامی کی تلخی اور کڑواہٹ کے باعث ایک دن اس نے بیوہ سے کہا؛

”میں اپنی اس معذوری پر بہت شرمندہ ہوں کیونکہ جو پانی تم اتنی مشقت سے بھر کر لاتی ہو وہ تو راستے میں ہی بہہ جاتا ہے ، جس کے باعث مجھے تمہاری محنت کے ذائع ہونے پرصد افسوس ہوتا ہے۔۔۔”

گھڑے کی یہ بات سن کر بیوہ مسکرائی اور کہا؛”کیا تم نے ان تین سالوں میں یہ نہیں دیکھا کہ میں جس طرف سے تمہیں اٹھا کر آتی ہوں وہاں تو پھولوں کے کئی خوبصورت پودے لگے ہیں۔ مجھے اس پانی کا پتا رہتا ہے جو تمہارے ٹوٹے ہونے کی وجہ سے بہتا رہتا ہے، اسی لیئے میں نے نہر سے گھر تک کے راستے میں پھولوں کے بیج بو دیئے تھے تاکہ میرے گھر پہنچنے تک وہ اس پانی سے سہراب ہوتے رہا کریں۔ میں نے ان پھولوں کے خوبصورت گلدستے بنا کر گاؤں میں فروخت کیئے ہیں اور اس رقم سے گھر کا سوداسلف اور دیگر ضروریت پوری کی ہیں۔ اگر تم میرے پاس نہ ہوتے تو میں اپنی ضروریات پوری نہ کر پاتی اور نہ ہی یہ بہار دیکھ پاتی جوتمہارے دم سے ہے”۔۔۔

ٹھیک اسی طرح ہم سب میں کوئ نہ کوئ خامی ہوتی ہے، جو اکثر دوسرے کے کام آجاتی ہے۔۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں کو ان کی خامی کے ساتھ قبول کریں اور ان خوبیوں کو بھی اجاگر کریں، جو خامیوں کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتی ہیں۔۔ اسی طرح معذور افراد بھی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کو اس طرح قبول کرنا چاہیے ، جیسے ہماری خوبیاں دوسرے کی خامیوں پر پردا ڈال رہی ہوں۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *