آج اس سے آخری ملاقات تھی میں پارک میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا مگر نگاہیں اس کی آمد کی کھوج میں نہیں تھی وہ میرے بتائے ہوئے وقت سے چند منٹ پہلے ہی آن پہنچی تھی خیر اب اس بات پر حیرانگی کا وقت نہیں تھا کیونکہ یہ ملاقات پہ چند منٹوں کے لئے تھی تھی وہ آتے ہی سلام کرکے میرے قریب بیٹھ گئی کی کی آواز میں وہ خواندگی نہیں تھی اس کی آواز میرے کانوں میں رس گھولتی تھی مگر آج وہ کسی کے نہیں کھائی سے ابھرتی ہوئی محسوس ہوئی آج وہ بہت کم کم بول رہی تھی چند منٹوں کی گفتگو کے بعد لگا جیسے وہ اپنی خاموشی چھپانے کے لئے بس تھوڑا سا بول رہی ہے
اس ملاقات میں وہ بہت حسین لگ رہی تھی صرف دو بار میری نگاہوں میں اس کے خوبرو چہرے کی زیارت کی کی مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ مسلسل اپنی نظر گاڑے ہوئے تھی آج اس کا وقت سے پہلے آ جانا اور مسلسل گھورتے رہنا نا بظاہر ان باتوں کو نظر انداز کئے ہوئے تھا اندر سے ان باتوں پر حیران ضرور تھا جو جو گزر رہا تھا میرے دل کی دھڑکن بھی ابھی تیز ہوتی جا رہی تھی مجھے لگا جیسے وہ بھی اٹھ کر میری زندگی کے آخری چراغ بجھا کر چلی جائے گی گی بالآخر میں نے ہمت کر کے پوچھ لیا یا کیا وجہ ہے کہ یہ وہ میری سچی محبت کو ٹھکرا کے جا رہی ہے ہے وہ اپنے پاس ہی پرانے معصومی انداز میں کہنے لگی کے میرے باپ نے میرا رشتہ کسی اور دے کر لیا ہے ہے میں خوش تو نہیں ہوں مگر اپنے والد کی خواہش پر انکار نہیں کر سکتی وہ کہنے لگی ابھی میرا منگیتر میرا چچا زاد ہے آخری ملاقات تم سے اس لیے کی تاکہ کہ تمہیں سب سچ بتا سکوں اس کو اب ہم نہیں مل سکتے اب میں کسی کی امانت ہو چکی ہو ہو اس کی ہر دس سیکنڈ کی گفتگو کوڑوں کی مانند تھی جیسے کسی نے مجھ پر درد کے انبار گرا دیئے ہوں 10 منٹ پہلے یہاں ایسے سے پہلے خود کو دل ہی دل میں تسلیاں دے رہا تھا کہ کہ سے جانے نہیں دوں گا منت سماجت کرکے روک لوں گا مگر ابھی یہ طفل تسلیاں دھری کی دھری رہ گئی تھی
میری محبت اس کے لیے سچ کی تھی محبت جس احساس کا نام ہے وہ شاید محبت کرنے والوں کے بچھڑنے سے پہلے ہی مر جاتا ہے ہے میں اٹھنے لگاتو اس نے میرا ہاتھ تھام لیا میں نے ہاتھ ہلکا سا جھٹکا مگر اس کے ہاتھ کی گرفت مضبوط تھی تھی اس نے دوبارہ بیٹھنے کا کہا میرے بیٹھتے ہیں وہ مجھ سے معافی مانگنے لگی اس کی آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے تھے جو کہ اس کے کے بعد مجبور ہونے کی گواہی دے رہے تھے رہے تھے آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میری آنکھوں نے بھی سو کی جیل سے سے آبشار بننے میں میں چند سیکنڈ سے زیادہ نہیں لیے وہ کسی اور کی امانت تھی وہ کسی اور کی چند تھی تھی لیکن شاید دل آج بھی اس کی محبت میں گرفتار تھا اور شاید ہمیشہ رہتا جو لڑکی کی چند سیکنڈ خاموش نہیں رہ سکتی تھی آج وہ تاریخ اور سناٹے جیسی کیفیت میں تھی پھر اب میں کیا کرتا وہاں سے اٹھا میرا اس سے خدا حافظ کہا ہاں اور اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اس سے اور اس کی محبت سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا
#urdu #UrduAdab #Afsaany ##Muhabba #Bewafa
#AkhriMulaqat
Newzflex#