مقام حضرت موسیٰ علیہ السلام
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دفن کرنے کی صحیح جگہ معلوم نہیں ہے لیکن روایت ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے ایک بار خواب دیکھا جہاں انہیں یہ جگہ دکھائی گئی۔ اس نے اس جگہ پر ایک مسجد بنائی تھی جسے سلطان بیبارس نے 1269 عیسوی میں مزید بڑھایا تھا۔ مقام جیریکو سے 11 کلومیٹر جنوب اور یروشلم سے 20 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔
قرآن مجید میں موسیٰ علیہ السلام کا نام 136 مرتبہ آیا ہے جو کہ کسی بھی دوسرے نبی سے زیادہ ہے۔
اس مقام پر ایک مملوک نوشتہ میں لکھا ہے کہ ‘اس مقام کی تعمیر کا حکم اس نبی کی قبر پر ہے جس نے خدا سے کلام کیا تھا، یعنی موسیٰ کی، اس کے لیے جلال سلطان ظہیر ابو الفتح بیبرس نے 668 ہجری میں حکم دیا تھا’۔
یہ عمارت ایک بڑے مرکزی صحن پر مشتمل ہے جس کے چاروں طرف 120 کمروں پر مشتمل ہے جس میں مسجد کے دائیں طرف حضرت موسیٰ کی تدفین ہے جو صحن کی مغربی دیوار کے خلاف بنائی گئی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
موت کا فرشتہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا گیا۔ جب وہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو موسیٰ علیہ السلام نے ان کی آنکھ پر تھپڑ مارا۔ فرشتہ اللہ کے پاس واپس آیا اور کہا کہ آپ نے مجھے ایک ایسے بندے کے پاس بھیجا ہے جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتے کو حکم دیا کہ اس کے پاس واپس جاؤ اور اس سے کہو کہ اپنا ہاتھ بیل کی پیٹھ پر رکھے اور اس کے نیچے آنے والے ہر بال کے بدلے اسے ایک سال کی زندگی دی جائے گی۔ موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا اے رب! اس کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا پھر موت۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فیصلہ کیا کہ اگر ایسا ہی ہے تو کیوں نہ ابھی ۔ موسیٰ علیہ السلام نے پھر اللہ سے درخواست کی کہ وہ انہیں مقدس سرزمین (مسجد اقصیٰ کے قریب) کے قریب موت نصیب کرے کہ وہ اس سے پتھر پھینکنے کے کچھ فاصلے پر ہو۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں ان کی قبر سڑک کے کنارے سرخ ریت کے ٹیلے کے نیچے دکھاتا۔
حوالہ جات: اٹلس آف دی قرآن – ڈاکٹر شوقی ابو خلیلی، مسجد الاقصی سے متعلق چالیس احادیث (اسماعیل آدم پٹیل)، اٹلس ٹورز، فلسطین کے لیے ہما کی ٹریول گائیڈ۔
نوٹ کریں کہ یہ اندراج صرف معلومات کے مقاصد کے لیے دکھایا گیا ہے۔ کسی کی بھی قبر پر نماز نہیں پڑھنی چاہیے اور نہ ہی ان سے دعا مانگنی چاہیے کیونکہ یہ شرک کے مترادف ہے، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے کے مترادف ہے۔