بدلتے رسم و رواج

In دیس پردیس کی خبریں
December 30, 2020

یہ کتابوں کی خوشبو محسوس کرنے کی آخری صدی ہے -کچھ سال گزرنے کے بعد کتابوں کے ورق ختم ہوجائیں گے اور دنیا ڈیجیٹل ہوجائے گی-پھر کتابیں کسی لائبریری یا عجائب گھر میں نظر آئیں گی -جس طرح مٹی کے گھڑے میں پانی پینے اور رکھنے کا زمانہ گزر گیا-مٹی کے گھڑے اور چھاٹی میں لسی اور دہی بنانے کے دن بھی گزر گئے-

گلی محلے میں ایک تندور پر روٹیاں پکانے کا زمانہ بھی چلا گیا-گاوں کے کھیتوں میں ہل چلا کر کبڈی کھیلنے کی شامیں بھی ختم ہوگئیں-گنے کی گانڑی میں یخ بستہ راتوں کو رس نکالنا بھی لوگوں بھول گیا-سرسبز و شاداب کھیتوں میں رہٹ پر بیل باندھ کر گہرے کنویں سے پانی نکالنے کی بجائے نہریں آگئیں -عشا کی نماز کے بعد حجروں میں طبلے اور رباب کا ساز اور مطرب کی یا قربان بھی ختم ہوگئی-ڈھول کی تھاپ پر جون کی دوپہر میں گندم کی کٹائی بھی ختم ہوگئی -کچے گھر کے کچے طاق میں پڑے ریڈیو کی جگہ سمارٹ فون نے چھین لی جس میں استاد ناشناس خیال محمد گلزار عالم یا مہ جیبن قزلباش کی آواز سر بکھیرتی تھی -ہر غم فکر پریشانی یا خدمت میں کام آنے والے دوست کی جگہ پانچ ہزار ان لائن دوستوں نے لے لی جو صرف لائک کمنٹ کے چکر میں رہتے ہیں –

رشتوں میں وہ اعتبار و اعتماد نہیں رہا-وہ محبتیں نہیں رہیں -وہ دکھ درد شئیر کرنا نہیں رہا -رشتے ایک بوجھ بن گئے -محبتوں میں وہ گداز نہیں رہا -محبوب میں وہ خوبصورتی نہیں رہی -الحمداللہ ہم وہ جنریشن ہیں جنہوں نے یہ ساری خوبصورتیاں دیکھی سنی سمجھی اور محسوس کی ہیں -ان سے لطف اٹھایا ہے -آج کی نسل ان خوبصورتیوں سے قطعی ناواقف ہے-ہم وہ آخری نسل ہیں جو سوکھی روٹی پر مکھن گھی لگا کر ساگ اور لسی کے ساتھ کھا چکے ہیں-جسکا ذائقہ آج تک ختم نہیں ہوا نہ ہوگا-