غار کو ایک کمرے کی شکل دی گئی تھی _ پورا غار کالے دھوے سے بھرا ہوا تھا_ ایک بڑی انسانی کھوپڑی کے نیچے آگ جل رہی تھی _ آگ کے قریب ایک مکروہ چہرے والا شخص دوزانو بیٹھا ہوا تھا _ وہ آنکھیں بند کیے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہا تھا _ غار میں چیخنے چلانے کی آوازیں گونجنے لگی اور غار لرزنے لگا_
دھوئیں سے ایک کریہہ شکل برآمد ہوی اور مکروہ چہرے والے شخص نے آنکھیں کھول دیں _ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں جیسے ان میں خون اتر آیا ہو _ یہ شام لال پجاری تھا کالے علم اور بہت ساری شیطانی طاقتوں کا آقا _ دھوئیں میں کریہہ شکل کا سایہ لہرا رہا تھا جس کی آنکھیں باہر کو ابلی پڑی تھیں _ لمبوترا سیاہ چہرہ اور اوپری دانت منہ سے باہر نکلے ہوے تھے _
“میرے آقا ناگوری آپ کے لیے بڑے شیطان کا پیغام لائی ہے” ایک چیختی ہوی آواز غار میں گونجی _”بولو ناگوری، جلدی بولو، تم نے میری بہت اہم تپسیا میں خلل ڈال دیا ہے” شام لال گرجتے ہوے بولا، اس کی آنکھیں مزید لال ہو چکی تھیں ایسا لگتا تھا کہ ابھی ان میں سے خون ابل پڑے گا_” آقا مجھے معاف کر دیجیے، بڑے شیطان کا حکم تھا اس لیے مجھے حاضر ہونا پڑا_ بڑے شیطان نے آپ کی کارکردگی سے خوش ہو کر آپ کو مزید شیطانی طاقتیں دینے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ شیطانی دھندوں کو طول دے کر مسلمانوں کے روشن دماغوں گندگی سے بھر دیا جائے”
“بڑے شیطان کو اچھی طرح پتہ ہے ناگوری، کہ میں جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں وہ پورا کرتا ہوں، اب دفع ہو جاؤ تم نے میری بہت بڑی تپسیا خراب کر دی ہے ” شام لال نے گرجتے ہوے ناگوری کو ہاتھ کے اشارے سے جانے کا حکم دیا _ ” آقا مجھے میری بھینٹ دیں، بھینٹ لینے کے بعد ہی میں جاؤں گی ” ناگوری نے اپنی سیاہ زبان باہر نکالتے ہوے کہا _” جاؤ اور تیسری غار سے دو بکریاں لے جاؤ، دوبارہ کبھی میری تپسیا میں خلل ڈالا تو بھسم کر دوں گا” شام لال کے چہرے کی سیاہی مزید سیاہ ہوگئی _ناگوری کا چہرہ غائب ہو گیا _
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
نبیل ایک خوش شکل نوجوان ہے _ وہ دارالحکومت کے مضافات میں پہاڑوں سے گھرے خوب صورت گاؤں میں رہتا ہے _ اس کے ساتھ اس کے ماں باپ، ایک بھائی جو دارالحکومت میں سرکاری ملازم ہے مہینے میں ایک دو بار گھر کا چکر لگا لیتا ہے اور بھابھی اور ان کے دو بچے رہتے ہیں _
چند راتوں سے نبیل بڑی پراسرار سرگرمیوں میں ملوث تھا وہ آدھی رات کو گھر سے نکلتا اور کالے پہاڑوں کے دامن میں موجود قبرستان کی طرف روانہ ہو جاتا _ اس وقت اس گھر والے پرسکون نیند سوئے ہوتے ہیں _ ایسا وہ شام لال پجاری کو ملنے کے بعد ہی کر رہا تھا _ پجاری نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ اسے کالے علم کا ماہر بنا دے گا اور کالے علم سے وہ کچھ بھی حاصل کر سکتا دولت، شہرت اور خوب صورت عورت تک ہر شے جس کی ہر ہوش مند انسان تمنا کرتا ہے _ نبیل پجاری کے جھانسے میں آ کر روشن راہ کو چھوڑ کے اندھیروں کا مسافر ہو گیا تھا _
شام لال نے اسے کہا تھا کہ اگر وہ اس کی آزمائش پر پورا اترے گا تو وہ اسے پہلا منتر سکھائے گا_ اس کا پہلا کام جو اس کے ذمہ لگا تھا وہ آدھی رات کو قبرستان میں کسی مردار جانور کا گوشت چبانا تھا اور اسی جانور کا خون پینا تھا _
وہ چند راتوں سے قبرستان جا رہا تھا لیکن یہ گھناؤنا کام کرنے کی اسے ہمت نہ ہو رہی تھی اور وہ واپس گھر آ جاتا تھا _ لیکن کی چاہت نے اس کے دماغ پر قبضہ کر لیا تھا _ وہ اس رات گھر سے ارادہ کر کے نکلا تھا کہ آج وہ یہ فعل ضرور سر انجام دے گا _ نبیل کبھی بہادر نہیں رہا تھا لیکن شیطانی قوتوں کے بھنور میں وہ بری طرح پھنس چکا تھا اسے کوئی دوسری راہ نہ دکھائی دیتی تھی _ اس رات گاؤں کے آوارہ کتوں میں سے ایک کتے کو روٹی دکھا کر اس نے اپنے پیچھے لگا لیا _ چھری اس نے جیب میں رکھ لی تھی گھر سے نکلتے ہوے _ کتے کو لیے وہ قبرستان میں داخل ہوگیا اور روٹی اسے کھلانے لگا _ روٹی کھانے کے لیے جیسے ہی کتا اس کے قریب ہوا اس نے کتے کو گردن سے دبوچ لیا _ کتے کی بے ہنگم چیخوں نے نبیل کو بوکھلا دیا_ وہ کتے کو اپنی پوری طاقت سے دبوچے ہوے تھا _ ایک ہاتھ سے اس نے جیب سے چھری نکالی اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ کتے کے گلے میں گھونپ دی _ ایک درد ناک چیخ کتے کے منہ سے برآمد ہوی جو نبیل کے ہاتھ سے ٹکرا کر رہ گئی _ نبیل نے کانوں سے پکڑ کو کتے کو ہوا میں بلند کیا اور بہتے خون کو پینے کے لیے اس نے اپنا منہ آگے کیا، چند قطرے منہ ٹپکائے ہی تھے کہ اسے لگا جیسے کسی نے اسے گردن سے دبوچ لیا ہے اور اس کا گلا دبا رہا ہے _ بوکھلاہٹ میں کتا اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور نبیل نے الٹا قدموں دوڑ لگا دی _ اسے اپنے پیچھے ایک سایہ سا لہراتا ہوا محسوس ہو رہا تھا _ نبیل اپنے پیچھے موت لپکتی محسوس کر رہا تھا _ موت نے اسے دہلا دیا تھا اور وہ سرپٹ دوڑا جا رہا تھا گھر کی طرف _ ہانپتے ہوے وہ گھر کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوا اور دبے قدموں چلتا ہوا وہ اپنے کمرے میں پہنچ گیا _خوف کے مارے اس کا کلیجہ اس کے منہ کو آ رہا تھا _ وہ دھڑام سے چارپائی پر گرا اور بے ہوش ہو گیا _
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
شام لال پجاری اپنی کمرے نما غار میں بیٹھا ہوا تھا اس کے چہرے پر مسرت نمایاں تھی _ وہ اپنے بچھائے ہوے مکر و فریب کے جال میں انسانوں کو کامیابی سے پھنسا رہا تھا _ آج نبیل نے شیطانی کام کی روداد سنانی تھی اور شام لال نے اس کے ذمے ایک اور شیطانی فعل لگانا تھا _ وہ نبیل کو اسلامی تعلیمات سے ہٹا کر شیطانی دنیا میں لانا چاہتا تھا _
“اب تک نبیل کو آ جانا چاہیے تھا” شام لال بڑبڑایا _
“آقا نبیل آ رہا ہے” شام لال کی ایک شیطانی قوت نے اسے آ کر بتایا وہ ایک حسین عورت تھی انسانی شکل میں _
نبیل غار کے دہانے سے اندر داخل ہوا اور چلتا ہوا شام لال کے سامنے بیٹھ گیا _
“خوش آمدید نبیل، خوش آمدید شام لال کی کالی دنیا میں، وہ دن دور نہیں جب تم بے تاج بادشاہ ہوگے اس دنیا کے “_
“لیکن میرے آقا میں آپ کی آزمائشوں سے نہیں گزر پاؤں گا، گزشتہ رات مردار کتے کا خون پیتے ہی کسی آفت نے مجھے گردن سے دبوچ لیا تھا، بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگا تھا میں قبرستان سے _ پوری رات بے ہوش رہنے کے بعد صبح ہی میرے حواس بحال ہوے ہیں اور میں آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں ”
” نبیل میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا کہ یہ آزمائشیں بڑے شیطان کی طرف سے ہیں، وہ کسی کو اپنا چیلا بنانے سے پہلے خوب تسلی کرتا ہے کہ یہ بعد میں مجھ سے رو گردانی نہ کر جائے ” شام لال نے نا گوار لہجے میں کہا_
” وہ تو ٹھیک ہے آقا، کیا میری گزشتہ رات والی آزمائش پوری ہو گئی ہے؟”
” نہیں ، بالکل نہیں تم نے آزمائش ادھوری چھوڑ دی تھی، تم نے مردار کا گوشت چبایا ہی نہیں_ تمہارا عمل بڑی شیطان کو ناگوار گزرا ہے_”
“میں اس دنیا اور اس موجود ہر چیز تسخیر کرنا چاہتا ہوں آقا، میں عزم کرتا ہوں کہ اب بڑے شیطان کی ہر آزمائش پہ پورا اتروں گا” نبیل کے منہ سے ایسے آواز نکلی جیسے اسے میکانکی انداز میں بولنے پر مجبور کیا جا رہا _ شام لال کی شیطانی قوتیں نبیل کے دماغ پر قبضہ کر چکی تھیں _
“نبیل یہ تمہاری دوسری آزمائش ہے اور اگر تم اسے پورا نہ کر سکے تو بڑا شیطان تم سے انتقام لے گا، یہ عمل شیطان کا پسندیدہ عمل ہے اور اسے ہر حال میں پورا کرنا ہے تم نے” شام لال کے چہرے پر پراسرار مسکراہٹ آ گئی_
“میرے آقا میں آپ کے ہر حکم کی تعمیل کروں گا” نبیل خود کار انداز میں بولا_
” نبیل تم آج رات قبرستان جاؤ گے، وہاں کسی قبر سے کسی مردے کا دل نکال کر لاؤ گے اور اسی وقت سیدھا میرے پاس پہنچو گے اس غار میں ”
” میرے آقا میں آج رات آپ کو دل پیش کروں، اس دفعہ میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا ”
” ٹھیک ہے نبیل اب تم جاؤ میں تمہارے بارے میں بڑے شیطان سے رابطہ کرتا ہوں اور مزید ہدایات لیتا ہوں”
نبیل غار کے دہانے تک الٹے قدموں چلتا ہوا باہر آیا، اس کا سر جھکا ہوا تھا _ ایسا لگ رہا تھا کہ شام لال نے کسی عمل کے ذریعے اسے قابو کر لیا ہے _
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
انسپکٹر جاوید ایک بہادر اور فرض شناس پولیس افسر ہیں _ وہ حال ہی میں دارالحکومت کے مضافات میں موجود تھانہ آزاد نگر میں تعینات ہوے ہیں _
انسپکٹر جاوید کو پچھلے کچھ دنوں سے اطلاعات مل رہی تھیں کہ آدھی رات کے وقت کوئی شخص قبرستان میں پھرتا ہوا دیکھا گیا ہے _ انسپکٹر جاوید کو تشویش تھی انھوں نے دو پولیس والوں کی ڈیوٹی قبرستان کے اطراف میں لگا دی تاکہ وہ رات کو کسی غیر متعلقہ شخص کی قبرستان میں آمد کو نوٹس کر سکیں _
عامر اور لیاقت کی ڈیوٹی قبرستان پر نظر رکھنے کی لگی تھی _ وہ دونوں سر شام ہی قبرستان کے قرب میں موجود ایک دودھ دہی کی دکان پر پہنچ گئے _ یہ قبرستان کے قریب موجود واحد دکان تھی _
“یار عامر یہ صاحب کو بھی ہر پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کا بڑا شوق ہے، بھلا قبرستان میں پھرنے والے شخص کا صاحب سے کیا تعلق ہے؟” لیاقت کچھ زیادہ خائف نظر آ رہا تھا_
“لیاقت تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ صاحب کوئی بھی کام بنا مقصد کے نہیں کرتے، ضرور ان کے پاس کوئی مصدقہ اطلاع ہوگی ” عامر نے لیاقت کو سمجھانے کی کوشش کی_
” اچھے بھلے رات کو کرسی پر بیٹھے رہتے تھے، اب معلوم نہیں یہاں کتنی دیر خوار ہونا پڑے گا” لیاقت نے تھکے ماندے انداز میں کہا_
” یار لیاقت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہ معاملہ جلد ختم ہو جائے گا، ہوگا کوئی آوارہ نشائی کو قبرستان میں پھرتا ہوگا، پکڑ کر دو لگائیں گے تو سیدھا ہو جائے گا دوبارہ قبرستان کے قریب بھی نہیں بھٹکے گا ” عامر نے ہنستے ہوے کہا _
وہ دونوں ایسے ہی خوش گپیوں میں مصروف رہے_ دس بجے دودھ والے نے دکان بند کی اور گھر چلا گیا_ دونوں نے 12 بجے تک خوب انتظار کیا کہ ابھی نشائی آئے گا، ابھی آئے گا لیکن کسی انسان کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا _
” یار مجھے لگتا ہے کوئی نہیں آئے گا، تھوڑی دیر بنچوں پر لیٹ کر سستا لیتے ہیں” لیاقت نے بنچ پر سیدھا ہوتے ہوے کہا_
عامر بھی بنچ پر سیدھا ہو کر لیٹ گیا اور دونوں دوبارہ باتوں میں مصروف ہو گئے _ باتیں کرتے کرتے وہ دونوں نیند کی گہری وادیوں میں اتر گئے_
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
نبیل سویا نہیں تھا وہ رات کے پچھلے پہر کا انتظار کر رہا تھا تاکہ وہ پجاری کے بتائے ہوے شرمناک فعل کو سر انجام دے سکے _اس نے ایک پھاوڑے کا پہلے ہی انتظام کر رکھا تھا تاکہ اسے قبر کھودنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے_ رات کے پچھلے پہر وہ دبے پاؤں چلتا ہوا کمرے سے باہر نکلا اور مرکزی دروازہ کھول کر گھر سے باہر آ گیا _سر پر رومال ڈالے، ہاتھ میں پھاوڑا لیے وہ قبرستان کی طرف پیش قدمی کرنے لگا _ قبرستان کے قریب پہنچ کر اس نے قرب و جوار کا معائنہ کیا اور قبرستان میں داخل ہو گیا _
اس کے گاؤں میں کل ہی ایک نوجوان فوت ہوا تھا_ وہ سیدھا اس کی قبر پر پہنچا اور پھاوڑے سے اس کی قبر کھودنے لگا_ دیڑھ گھنٹے کی سخت مشقت کے بعد وہ قبر کا اوپری حصہ کھولنے میں کامیاب ہو چکا تھا_ اس نے قبر سے پلیٹیں ہٹائی اور سیدھا کفن میں لپٹی لاش پر لپکا _ اسی اثنا اسے محسوس ہوا کہ کوئی بھاری چیز اس کے سر پر آن پڑی اور وہ سیدھا لاش کے اوپر جا گرا _ اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے وہ اس لاش کی جگہ قبر میں دفن ہو _ اس نے حوس و ہواس کو سنبھالا اور گزشتہ رات استعمال ہونے والے چاقو سے لاش کا سینہ چاک کرنے لگا_ اس فعل کے دوران اسے متعدد سائے سر پر لپکتے محسوس ہوے_ اس کے سر پر جنون سوار تھا وہ رکا نہیں، اس کے ہاتھ تیزی سے حرکت کر رہے تھے_ وہ لاش کا سینہ چاک کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا _ اس نے چاک ہوے سینے میں ہاتھ ڈالا اور لاش کا دل نکال لیا _ جیسے ہی لاش کا دل اس کے ہاتھ میں آیا ایک اڑتی ہوی مخلوق اس کے سر سے اوپر سے نکل گئی، اس کا دل دہل کر رہ گیا _ اس نے دل کو رومال میں لپیٹا اور پھر قبرستان سے باہر دوڑ لگا دی _ اسے اپنے پیچھے ایک تیز بو محسوس ہو رہی تھی جیسے وہ بو اس کا پیچھا کر رہی ہو _صبح کے چار بج رہے تھے اور وہ پہاڑوں کی طرف دوڑتا ہوا جا رہا تھا_ بدحواسی میں اسے خیال تک نہ رہا تھا کہ اس نے قبر کھلی چھوڑ دی تھی _ وہ مسلمان تھا لیکن شیطانی طاقتوں کے زیر اثر اس نے اپنے ہی مسلمان بھائی کے جسم کے ساتھ بھیانک حرکت کی تھی_ وہ دوڑتا ہوا پہاڑوں میں داخل ہوا اور سیدھا شام لال کی غار کی طرف لپکا اور دوڑتے ہوے دہانے سے اندر داخل ہو گیا_ شام لال آگ کا آلاؤ جلائے بآواز بلند کوئی منتر پڑھ رہا تھا_ نبیل آلاؤ کے سامنے کھڑا ہو گیا، دل کو اس نے دونوں ہاتھوں سے تھام رکھا تھا_ اسے وہ بو اب بالکل بغل سے آ رہی تھی_ اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی بلا اس کے بغل میں موجود ہے اور ابھی اسے نگل جائے گی_
شام لال نے آنکھیں کھولی اور مسرور چہرے کے ساتھ ایک نظر نبیل پر ڈالی اور رومال کی طرف اشارہ کیا کہ یہ مجھے پکڑاؤ_
“مٹاری، تمہاری ضرورت نہیں چلی جاؤ اب تم” شام لال نے نبیل کے قریب کسی نا معلوم مخلوق کو ہاتھ کے اشارے سے جانے کا کہا_
“نبیل تم شیطان کے پسندیدہ انسان بنتے جا رہے ہو، شیطان نے تمہیں اپنے درباریوں میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے_ بس ایک اور آخری کام تم نے کرنا ہے اور پھر شیطان اپنی بہترین طاقتیں تمہیں سونپ دے گا”
“بڑی مشکل سے یہ کام کر پایا ہوں میں، ابھی اور بھی امتحان باقی ہے کیا؟” نبیل کا لہجہ سوالیہ تھا_
“یہ تمہارا آخری کام ہوگا اور یہ شیطان کا درباری بننے کے لیے بہت اہم بھی ہے، تمہارے قدم ڈگمگانے نہیں چاہیے، اور اس حکم کی تعمیل تم پر لازم ہوگی”
” میرے مجھے کیا کرنا ہوگا؟” نبیل نے پوچھا_
“تمہیں اپنے کسی خونی رشتے دار کے چھوٹے بچے کو میرے پاس لانا ہوگا، اس بچے کو شیطان کی بھینٹ چڑھایا جائے گا اور پھر تم ہمیشہ کے لیے امر ہو جاؤ گے، تمہارے پاس شیطانی طاقتیں ہوں گی، دولت ہوگی اور حسین عورتیں ہوں گی، تم جو چاہو گے کر سکو گے ” شام لال نے تیزی سے بولتے ہوے کہا_
” میرے آقا مجھے اتنی بڑی آزمائش میں نہ ڈالیں” نبیل کا لہجہ منت بھرا تھا_
“نبیل تم سلطان بننا چاہتے ہو تو اس کا یہی ایک راستہ ہے” یہ کہتے ہی شام لال کے نبیل کے ماتھے کی طرف اشارہ کیا_ اشارہ کرتے ہی نبیل کی چمکتی آنکھیں مدھم پڑ گئی اور وہ شام لال کے زیر اثر ہو گیا_
” ٹھیک ہے میرے آقا میں اپنے بھائی کا بچہ لے آؤں گا” نبیل کا لہجہ ڈوبا ہوا تھا_
” ٹھیک اب تم جاؤ، اور آج رات 12 بجے بچہ لے کر پہنچ جانا”
“ٹھیک ہے میرے آقا” نبیل کھڑا ہوا اور غار سے باہر نکل آیا_
سورج کافی چڑھ آیا تھا اور دن کا اجالا ہر طرف پھیل چکا تھا_ گاؤں واپس جاتے ہوے اسے لوگوں کا ایک ہجوم نظر آیا جو قبرستان کی طرف بڑھ رہا تھا_
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
انسپکٹر جاوید اپنے دفتری کمرے میں بیٹھے معمول کی فائلیں دیکھ رہے تھے کہ انھیں تھانے کے باہر شور سنائی دیا_وہ اٹھ کر باہر نکلے اور تھانے کے گیٹ پر موجود اہلکار سے پوچھا:
“ریحان یہ کیسا شور ہے؟”
“سر باہر کچھ مشتعل لوگ تھانے کی طرف دوڑتے ہوے آ رہے ہیں، عامر اور لیاقت ان کے آگے آگے بھاگ رہے ہیں”
انسپکٹر جاوید دروازے سے باہر نکل کر کھڑے ہوگئے_تب تک ہجوم تھانے کے قریب پہنچ چکا تھا_ عامر اور لیاقت ہانپتے ہانپتے انسپکٹر جاوید کے پیچھے کھڑے ہو گئے_
” انسانوں کی بے حرمتی دیکھ دیکھ کر دل نہیں بھرا ان پولیس والوں کا تو اب ان کے ہوتے ہوے لاشوں کی بے حرمتی ہونے لگ گئی ہے” ہجوم سے ایک مشتعل آدمی کی آواز بلند ہوی_
“زندہ انسانوں سے تو آپ لوگوں نے جینے کا حق چھین لیا ہے کم از کم قبر میں میتوں کو تو سکون سے سونے دو” ایک قدرے بوڑھے شخص نے کانپتے ہوے لہجے میں کہا _ وہ سب سے زیادہ غمگین لگ رہا تھا شاید وہ قبر والے کا باپ تھا_
” دیکھیے میری بات سنیے، مجھے بتائیے کہ ماجرا کیا ہے؟ ” انسپکٹر جاوید نے شائستہ لہجے میں کہا_
” آپ ان دو مسٹنڈوں سے کیوں نہیں پوچھتے؟ جن کی آپ نے ڈیوٹی لگائی تھی_ چند پیسوں کی خاطر انھوں نے لاش کو بیچ دیا_ انسانیت باقی ہے یا نہیں آپ لوگوں میں؟” ایک نوجوان جو سب سے زیادہ مشتعل نظر آ رہا تھا وہ چیختے ہوے بولا شاید وہ مرنے والے کا بھائی تھا_
انسپکٹر جاوید نے گھورتے ہوے عامر اور لیاقت کی طرف دیکھا “کیوں عامر کیا مسئلہ ہے؟” انسپکٹر جاوید نے سخت لہجے میں پوچھا_
“وہ سر ،وہ وہ کل وفات پانے والے نوجوان شکیل احمد ولد عبد الجبار کی لاش کی بے حرمتی کی گئی ہے اس کا سینہ چاک کیا گیا ہے” عامر نے ڈرتے ڈرتے کہا_
انسپکٹر جاوید کے چہرے پر سرخی چھا گئی وہ اس گھناؤنے فعل کا تصور بھی نہیں کر سکتے_ انھوں نے اس بپھرے ہوے ہجوم کو بڑی مشکل سے سمجھایا اور تھانے سے واپس بھیجا یہ کہہ کر وہ اس مجرم کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے اور چند دنوں میں اسے گرفتار کر کے لائیں گے_
ہجوم کے چلے جانے کے بعد وہ تھانے میں داخل ہوے برآمدے میں عامر اور لیاقت سر جھکائے بیٹھے ہوے تھے_
“کہاں مر گئے تھے تم دونوں، کس لیے ڈیوٹی لگائی تھی میں نے تم دونوں کی؟” انسپکٹر جاوید نے کڑک دار لہجے میں کہا_
“سر وہ، سر میں، سر ہم دونوں نے 12 بجے تک ہر طرف نظر رکھی تھی لیکن کسی کے نہ آنے پر ہم تھک کر ذرا سستانے کے لیے لیٹے تو ہمیں نیند آ گئی سر” لیاقت نے سر جھکائے ہوے کہا_
” تمہاری وجہ سے، تم جیسے پولیس والوں کی وجہ سے پورا محکمہ بدنام ہے تم لوگ فرض شناسی سے ڈیوٹی کرتے تو آج اتنی باتیں نہ سننی پڑتی” انسپکٹر جاوید نے برہم ہوتے ہوے کہا_
” سر ہم معذرت خواہ ہیں سر آگے کبھی ایسی فاش غلطی نہ کریں گے” دونوں نے شرمندہ لہجے میں کہا_
“آج کے بعد سے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا، دوبارہ ایسی غلطی ہوی تو اپنے ہاتھوں سے تم دونوں کو گولی مار دوں گا” یہ کہہ کر انسپکٹر جاوید اپنے کمرے میں چلا گیا _ اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ سارے ثبوت وہ خود اکٹھے کرے گا اور مجرم کا سراغ بھی خود ہی لگائے گا_
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
نبیل کے گھر والوں کا معمول تھا وہ عشا کے بعد سو جاتے تھے، نبیل کو آج رات سکون نہیں تھا_ اس نے آج اپنے بھائی کے چار سالہ پھول جیسے بیٹے کو لے جانا تھا جسے پجاری بھینٹ چڑھانے والا تھا_ نبیل کے دل میں روشنی کی ذرا سی کمک موجود تھی لیکن شیطان کے چیلے اس دماغ پر قابض تھے_
گیارہ بجتے ہی نبیل اٹھا اس نے ایک کالی شال لی، اس کی بھابھی کے ساتھ والی چارپائی پر دونوں بچے سوئے ہوے تھے اس نے چار سالہ اذان کو اٹھایا اور بری آرام سے اٹھا کر آہستہ چلتے ہوے گھر سے باہر نکل گیا_ وہ صبح لوگوں کو ہجوم دیکھ چکا تھا اس لیے محتاط قدم اٹھاتے ہوے وہ ایک متبادل راستے سے پہاڑوں کی طرف روانہ ہوگیا_
انسپکٹر جاوید بھی پہاڑوں کی طرف جاتے راستے ذرا فاصلے پر ایک کچے ہوٹل میں بیٹھا چائے پی رہا تھا وہ ثبوت کی تلاش میں گاؤں کے ارد گرد پھر رہا تھا تو اسی چائے کی طلب ہوی اور وہ اس ہوٹل میں چلا آیا_ ہوٹل رات کو کھلا رہتا تھا کبھی کبھار کوئی مسافر کھانا کھانے یا سونے کے لیے ادھر آ جاتا تھا_ انسپکٹر جاوید سادہ کپڑوں میں ملبوس بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ اسے دور ایک سایہ پہاڑوں کی طرف جاتے ہوے دکھا_
یہ نبیل کی بدقسمتی تھی کہ اس نے متبادل راستے کا انتخاب کیا تھا، متبادل راستے کے پاس ہی وہ کچا ہوٹل تھا_
انسپکٹر جاوید نے چائے کا کپ وہی رکھا، چائے کی رقم ادا کی اور اس سائے کے پیچھے چل پڑا_ وہ کافی فاصلے سے سائے کا پیچھا کر رہا تھا تاکہ اس شخص کو شک نہ پڑ سکے کے کوئی اس کے پیچھے ہے_
نبیل آہستہ آہستہ چل رہا تھا تاکہ بچے کی آنکھ نہ کھلے_ وہ چلتے چلتے غار کے قریب پہنچ گیا _ اس کے سر کے اوپر ایک روشنی سی چمکی اور اسے اپنے قریب وہی بد بو آنے لگی جو قبرستان سے واپسی پر پیچھا کرتی آئی تھی اس کا_ اس کے سامنے ایک خوفناک چہرہ ہوا میں معلق ہو گیا_ بغیر ناک، دھنسی ہو آنکھیں پھیلا ہوا منہ اس کے منہ سے سانپ کی طرح کبھی باہر آ رہی تھی تو کبھی اندر جا رہی تھی_
“تمہیں آقا نے پہاڑ کے پیچھے بلایا ہے” اس چہرے سے ایک مکروہ آواز برآمد ہوی_ نبیل خاموشی سے دو جڑواں پہاڑوں کی سائیڈ سے ہوتا ہے ہوا غار والے پہاڑ کے پیچھے پہنچ گیا_
انسپکٹر جاوید بھی نبیل کا پیچھا کرتے ہوے پہاڑوں تک پہنچ چکا تھا _ وہ ایک نوکیلے پتھر کے پیچھے چھپ کر حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانے لگا _ وہ مجرم کو رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتا تھا_
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
شام لال نے پہاڑ کے پیچھے ایک کھلی جگہ پر لکڑیوں کا ڈھیر لگا رکھا تھا_ ایک طرف ایک طشتری وہ دل پڑا ہوا تھا جو نبیل لایا تھا_ لکڑیوں کے اوپر سولی نما شکل بنی ہوی تھی، لکڑیوں کی سیدھ میں ایک مورتی رکھی ہوی تھی جو کہ شیطان کی مورتی _”نبیل کیا تم بچے کو لے آئے ہو؟ ” شام لال نے پوچھا
” جی میرے آقا لے آیا ہوں” نبیل نے بچے کو شال سے نکال کر شام لال کے سامنے لاتے ہوے کہا_
” ادھر لے آؤ اسے مجھے پکڑا کر تم ادھر دل کے پاس کھڑے ہو جاؤ، جیسے میں تمہیں اشارہ کروں وہ دل تم نے مکمل چبا لینا ہے_”
نبیل سر خم کرتے ہوے دل کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا_ شام لال نے بچے کو ٹانگوں سے پکڑ کر سولی پہ لٹکانے ہی لگا تھا کہ بچے کی آنکھ کھل گئی _ جیسے ہی بچے نے ماحول دیکھا وہ زور زور سے رونے لگا _ بچے کی آواز پہاڑوں سے ٹکرا کر گونج رہی تھی_ شام لال نے پاس پڑے رومال سے بچے کا منہ باندھ دیا _ بچے شدت درد سے تڑپنے لگا لیکن شام لال نے بچے کو سولی پر لٹکا دیا تھا _نبیل سر جھکائے طشتری کے پاس کھڑا تھا_ شام لال نے آگ جلائی ایک ہاتھ میں اس نے ایک بوتل پکڑی ہوی تھی اور دوسرے میں ایک کھوپڑی تھی_ وہ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگا اور بوتل کو آگ پر چھڑکنے لگا جس سے آگ تیز ہونے لگی تھی_ اس کے منتروں کی آوازیں بلند ہونے لگی تھیں _ ماحول کی سیاہی بڑھ گئی تھی کئی دردناک چیخیں بیک وقت شروع ہو گئی جیسے بہت روحیں مل کر بین کر رہی ہوں _ آگ کی حدت سولی پر موجود بچے تک پہنچی تو وہ مزید تڑپنے لگا اس کے رونے بلکنے کی نہایت ہلکی آواز رومالے سے چھن کر آ رہی تھی_
“خبردار! رک جاؤ تم مکروہ شیطان، بے رحم قاتل تم ایک بچے کی قربانی دینے جا رہے تھے، آج تمہیں تمہاری موت بھی مجھ سے نہیں بچا پائے گی” انسپکٹر جاوید کی کڑک دار آواز نے ماحول کو دہلا کر رکھ دیا_ ماحول میں گونجنے والی چیخیں یک دم بند ہو گئی _ انسپکٹر جاوید نے شام لال کے کھوپڑی والے ہاتھ پر گولی چلا دی، گولی سیدھا شام لال کے ہاتھ میں لگی اور کھوپڑی کے دو ٹکڑے ہوگئے_ گولی اس کے ہاتھ کو چیرتی ہوی باہر نکل گئی_ شام لال نے نیچے پڑی چھری کو انسپکٹر جاوید کی طرف اچھالا _ انسپکٹر جاوید جھکائی دیتے ہوے چھری سے بچا، بچتے ہی بڑی پھرتی سے اس نے دوسری گولی چلائی جو سیدھا شام لال کے دل میں پیوست ہو گئی_
“جہنم میں جاؤ ناپاک انسان اور اپنے باپ کے ساتھ جہنم میں راج کرنا” انسپکٹر جاوید نفرت انگیز لہجے میں بولا_
نبیل اپنی جگہ پر ہاتھ بلند کیے کھڑا تھا_ انسپکٹر جاوید نے ایک زناٹے دار تھپڑ نبیل کو رسید کیا، انسپکٹر نے اسے ہتھکڑی لگا کر زمین پر لٹا دیا _ انسپکٹر جاوید جلدی سے سولی کی طرف لپکا اور بچے کی ٹانگ رسی سے جدا کر کے بچے کو نیچے اتار لیا_ بچہ بے تحاشہ رو رہا تھا، اس کا سر اور منہ شدید گرم ہو رہا تھا_ انسپکٹر جاوید نے نبیل کو کالر سے پکڑ کر کھڑا کیا اور ایک ہاتھ سے بچے کو اور دوسرے ہاتھ سے نبیل کا کالر پکڑے وہ گاؤں کی طرف چل پڑا_
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
اذان کی ماں نصف شب کے بعد بیدار ہوی تو وہ اذان کو نہ پا کر پریشان ہو گئی _ پہلے وہ نبیل کے کمرے کی طرف گئی اور اسے آواز دی، کوئی جواب نہ ملا اس نے اندر جھانکا اندر کوئی موجود نہ تھا_ وہ دوڑتی ہوی باہر آئی اور نبیل کے والد کو اٹھایا اور بتایا کہ اذان اور نبیل دونوں غائب ہیں _ وہ دونوں کافی پریشان تھے کہ آواز سن کر نبیل کی ماں بھی بیدار ہو گئی _
“میں باہر دیکھ کر آتا ہوں بہو، تم پریشان مت ہو، اللہ کرم کرے گا” سلیم صاحب نے بہو کو تسلی دیتے ہوے کہا_
وہ باہر نکلے ہی تھے کہ باہر سے کچھ متفرق آوازیں سنائی دیں_
“اس بد بخت کوبھی اس ناپاک کے ساتھ کیوں نہ مار ڈالا آپ نے انسپکٹر صاحب” بستی کے ایک معتبر انسان کی آواز آئی _ نبیل کو گاؤں کی طرف لاتے راستے میں بچے کے رونے نے لوگوں کو بیدار کر دیا تھا_
“خدا کی لعنت ہو اس انسان پر یہ اپنے بھتیجے کو شیطان کی بھینٹ چڑھانے والا تھا” ایک اور بزرگ بولے_
انسپکٹر جاوید چلتا ہوا نبیل کے دروازے پر پہنچا سامنے نبیل کے والد سلیم صاحب موجود تھے_ اذان کی رونے کی آواز سن کر اس کی ماں دوڑتی ہوی آئی اور جھٹ سے انسپکٹر سے اپنا بچہ لے کر اسے پیار کرنی لگی_ ماں کا لمس پاتے ہی بچہ چپ کر گیا_
سلیم صاحب پریشان کن نظروں سے کبھی نبیل کو دیکھتے اور کبھی انسپکٹر جاوید کو_ انسپکٹر جاوید نے تمام واقعات سلیم صاحب کے گوش گزار کیے اور نبیل کو لے جانے کی اجازت چاہی_ سلیم صاحب تمام واقعات سنتے ہی شدت جذبات سے چلا اٹھے_
وہ نبیل کو مارنے کے لیے دوڑے ہی تھے کہ گاؤں کے لوگوں نے انھیں پکڑ لیا_
“لے جائیے اس بدبخت کو میری آنکھوں اوجھل کر دیجیے، اسے ایسی عبرت ناک سزا دیجیے کہ پھر کسی کے بیٹے کو نبیل بننے کی جرات نہ ہو کبھی” یہ کہتے ہوے سلیم صاحب پھوٹ پھوٹ کر رو دیے _ نبیل کی ماں بھی دروازے کی چوکھٹ پر کھڑی رو رہی تھیں _
“فکر نہ کریں سلیم صاحب نبیل کو قانون کے مطابق میں خود سزا دلاؤں گا یہ میں وعدہ کرتا ہوں” انسپکٹر جاوید نے پختہ لہجے میں کہا اور نبیل کو دھکیلتے ہوے تھانے کی طرف روانہ ہوگیا_