#پردیسی کی زندگی۔
#انسان #پردیس میں کئی #مجبوریوں کی وجہ سے آتا ہے ورنہ کس کا دل کرتا ہے اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کو چھوڑ کر اکیلا آکر پردیس میں رہے ۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ اپنوں کا پتا مصیبت میں ہی لگتا ہے۔ مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اپنوں کا پتا پردیس آکے لگتا ہے۔ سب کہتے ہیں کہ پردیس جاکے لوگ بدل جاتے ہیں مگر نہیں پردیس میں تو لوگوں کو عقل آتی ہے۔ اپنوں اور غیروں کی پہچان ہوتی ہے۔ زندگی کا مطلب اور مقصد پردیس آکر پتا چلتا ہے۔ اپنوں کی اہمیت اور دیس سے محبت یہاں آکر پتا چلتی ہے۔
ایک پردیسی کچھ پیسے نہیں کما کر دیتا بلکہ آپنی دن رات کی محنت دیتا ہے ۔ خود پردیس میں ایک وقت کھانا کھاتا ہے تاکہ دیس میں بیٹھے بہن بھائی تین وقت کا کھانا کھا سکے ۔ ماں کی آواز سن کہ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ ماں کے ہاتھ کہ کھانے کو ترستے رہتے ہیں۔ بہنوں کی شادیوں پہ لاکھوں پیسے تو بیجھ دیتے ہیں مگر بہنوں کے چہروں کی خوشی نہیں دیکھ پاتے ۔ میرا بھائی اکثر کہتا ہے کہ مجھے بھی اپنے پاس بلا لو مگر میں ہمیشہ اسے ٹال دیتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ جو دکھ میں نے دیکھے ہیں میرا بھائی دیکھے۔ وہ لوگ بہت خوش نصیب ہیں جو دیس میں رہتے ہیں۔ اپنوں کے ساتھ۔
پردیسی کا سب سے بڑا دکھ کیا ہے؟ جب آپنا کوئی عزیز ہمیں چھوڑ کہ چلا جائے اور ہم اتنا مجبور ہو کہ اس کا آخری دیدار بھی نہ کر سکے۔ ہم کمانے کے لیے آتے ہیں اور کئی محرومیوں کے ساتھ واپس اپنے وطن جاتے ہیں۔کامیاب انسان وہی ہے جو آپنا مقصد کبھی نہ بھولے ۔ اگر ہمارا ملک اتنا ترقی یافتہ ہوتا تو کبھی ماں کے پیارے بیٹے پردیسی نہ ہوتے ۔ اور اپنوں کے ساتھ مل کر زندگی گزارتے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو اتنی ترقی دے کہ کبھی کسی ماں کا بیٹا پردیسی نہ ہو۔۔ آمین
تحریر۔
غلام علی