گھر بچے کا پہلا اسکول ہوتا ہے اور والدین خصوصا ماں اس کی پہلی ٹیچرز ہوتی ہے۔ بچے کا سب سے زیادہ وقت ماں کے ساتھ گزرتا ہے۔ والدین بچے کی پرورش کرتے ہیں۔ اس کی تمام ضروریات پوری کرتے ہیں۔ والدین سے زیادہ کوئی اور بچے سے محبت نہیں کر سکتا اور نہ ان سے زیادہ کوئی اس کا خیر خواہ ہو سکتا ہے۔ والدین کی دانستہ یا نا دانستہ طور پر اختیار کیا گیا رویہ اور عادات ہی ان کی تربیت ہوتی ہے جو بچے ک کامیاب مستقبل کی بنیاد رکھتی ہیں یا انجانے میں اس کو ایک کمزور شخصیت کا مالک بنا کر اس کی ناکامی کا راستہ کھولتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ بطور والدین ہمیں کن عادتوں کو فروغ دینا چاہئے۔
بچے میں اعتماد پیدا کریں۔ اگر اس میں خود اعتمادی نہیں ہوگی تو نہ کوئی انسان اس کے کسی کام آسکے گا نہ پیسہ اور نہ ڈگریاں۔ اعتماد پیدا کرنے کے لئے اس پر بروسہ کریں، اسے خود پر انحصار کرنا سکھائیں۔ اس سلسلے میں ایک مشق یہ کی جا سکتی ہے کہ آپ کسی دکان پر بچے کو اس کی مرضی کی خریداری کرنے دیں خود کچھ فاصلے پر کھڑے ہو جائیں۔ شروع شروع میں اسے دکاندار کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مشکل ہو گی لیکن جب وہ اس میں کامیاب ہو جاے گا تو اسکو لوگوں سے رابطہ کا کا طریقہ آئے گا۔بچے کو نظمیں یا لوری سنائیں، دلچسپ کہانیاں سنائیں، جس سے اس کی سننے اور تصویر کشی کی صلاحیت بڑھتی ہے اور اس طرح اس میں پری اسکول تصور کی تکمیل ہوگی۔
بچے کے سامنے اپنے کام خود کریں اور اسے بھی چھوٹے موٹے کام کرنے کی عادت ڈالیں، مثلا پانی خود پینا، کھلونے سمیٹ کر رکھنا، گھر کی چیزیں اپنی جگہ رکھنا وغیرہ۔ اس طرح اس میں محنت کرنے اور اسے برا نہ سمجھنے کی عادت پڑے گی۔بچے کو باہر پارک میں کھیلنے کے لئے لے کر جائیں۔ خود فاصلے پر بیٹھ جائیں اور اسے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے دیں اس طرح اس کی جسمانی نشوونما کے ساتھ گروپ میں کام کرنا سیکھے گا، ہارنا جیتنا سیکھیں گا۔ بچے کو جیب خرچ دینے کے ساتھ اسے پیسے کی اہمیت کا احساس دلائیں اور بچت کرنے کا شوق پیدا کریں جو آگے چل کر اس کی عملی زندگی میں کارآمد ہوگا۔ بچے میں اچھی عادات و اخلاق پیدا کریں اسے شکریہ، معذرت اور پلیز جیسے الفاظ کا استعمال سکھائیں۔
بچے کی بات غور سے سنیئے ، بات درمیان میں سے مت کاٹیں اور اس سے بھی ایسا ہی کروائیں، اس طرح اس میں اظہار خیال کی صلاحیت پیدا ہو گی۔بچے میں اتنا اعتماد ضرور ہو کہ وہ ناں کہہ سکے۔ مثلا اس کا کوئی دوست کھیلنے کا کہے لیکن اس کا موڈ نہ ہو تو وہ اس کو منع کر سکے۔بچے کو یہ سمجھانا بھی ضروری ہے کہ کوئی آپ کو غیر ضروری طور پر نہ چھوئے۔ اچھا چھونے اور برا چھونے میں کیا فرق ہوتا ہے۔آئیے اب یہ جانتے ہیں کہ کن رویوں سے بچے کی شخصیت پر برے اثرات ہوتے ہیں؟
نمبر1:بچے میں احساس کمتری یا احساس برتری ہرگز نہ پیدا ہونے دیں۔
نمبر2: بچوں میں تشدد کے جذبات نہ آنے دیں، ان کے سامنے لڑائی جھگڑے سے گریز کریں۔
نمبر3: خوف سے دور رکھیں، یہ ان کی نشوونما پر انتہائی مضر اثرات مرتب کرتا ہے۔
نمبر4: اپنی چیزیں شئیر کرنا سکھائیں ورنہ اس میں خود غرضی آئے گی۔
نمبر5: بچے کو دوسروں سے موازنہ کرنے سے روکیں، جیسا کہ اگر بچہ کہے کہ مجھے وہ کھلونا چاہئے جو میرے فلاں دوست کے پاس ہے تو اس کو وہ کھلونا دلانے کے بجائے کوئی ایسی چیز دلائیں جو واقعی اس کو پسند ہو نہ کہ کسی سے موازنہ کی وجہ سےبچے میں جو بھی تبدیلی لانا چاہتے ہیں پہلے خود ویسا بن جایئے کیونکہ کہ بچے جیسا دیکھتے ہیں ویسا کرتے ہیں۔
شکریہ ۔