کوئی بھی معاشرےاستاد کی عزت و تکریم کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ اپنے اساتذہ کی قدر کرتے ہیں وہی کامیاب و کامران رہتے ہیں۔ استاد کا مقام معاشرے میں سب سے بلند ہے۔ استاد کسی بھی معاشرے کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہ معاشرے میں شعور کو بیدار کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی استاد کی قدر کرنے کا کہا گیا ہے۔
حضرت علی کا فرمان ہے کہ جس نے تم کو ایک لفظ بھی سکھایا وہ تمھارا استاد ہے۔ اس لحاظ سے ہر وہ انسان جس نے ہمیں کچھ نا کچھ سکھایا ہو وہ ہمارا استاد ہے اور ہمیں چاہیے کہ ان کا احترام کریں۔ استاد ایک مقدس پیشہ ہے جو باقی تمام پیشوں کو جنم دیتا ہے۔ استاد ایک بچے پر محنت کرتے ہیں اور ان کی محنت کی وجہ سے بچہ افسر بن جاتا ہے۔استاد ہمارے روحانی باپ کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ اپنے طالب علم کے لیے دعا کرتے ہیں اور ان کی ذاتی پرورش بھی کرتے ہیں۔ وہ طالب علم جو اساتذہ کی قدر نہیں کرتے وہ ناکام رہتے ہیں۔ ہمارے کالج میں کچھ سٹوڈنٹس ایسے تھے جو اساتذہ کی عزت نہیں کرتے تھے۔ وہ ان کی نقل اتارتے تھے اور ان کو برے القاب دیتے۔ وہ اساتذہ کو تنگ بھی کرتے۔ مگر استاد کی دعا اور بد دعا میں بہت اثر ہوتا ہے۔ ان کی یہ حرکتیں ان کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی اور وہ ناکام ہوگئے۔
اب وہ کسی دوکان وغیرہ میں مزدوری کر رہے ہیں۔ ہمارے اردو کے استاد صاحب ہمیں بتایا کرتے تھے کہ لوگ پہلے زمانے میں استاد کی بڑی عزت و تکریم کیا کرتے۔ استاد کے لیے کھانا لے کر آتے اور جب طالب علم پڑھائی مکمل کر لیتا تو ان کے لیے کپڑے اور انعامات لاتے۔ مگر جب سے یہ پرائیویٹ ٹیوشن کا رواج شروع ہوا اور استاد نے طالب علم کو اس کے گھر میں جا کر پڑھانا شروع کیا، استاد کا وہ مقام نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔
پہلے یہ ٹیوشن کا کوئی رواج نہیں تھا۔ طالب علم صرف مدارس وغیرہ میں پڑھ کر چلے جاتے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ امرا کے بچے استاد کی اتنی عزت و تکریم نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ شہروں میں رہنے والے بھی کم کی استاد کی عزت کرتے ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ سب کے ساتھ ایسا معاملہ ہو۔ اچھے برے انسان معاشرے کے ہر کونے میں رہتے ہیں۔ آپ بھی انہی لوگوں میں شامل ہو جائیں جو اپنے استاد کی عزت کرتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی بات غور سے سنیں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔ جب وہ بول رہے ہوں تو نظر جھکا لیں اور ادب کے ساتھ کھڑے رہیں۔ ان کی بات کو مقدم رکھیں۔ ان کو اچھے القابات سے پکاریں۔ ان کو اپنی دعاؤں میں لازمی شامل کریں۔ اس طرح ایک اچھے معاشرے کا قیام ممکن ہے اور آپ کامیاب و کامران بھی ہو سکتے ہیں۔