آرٹیکل: ہماری کائنات
ازقلم: عرفان حیدر
ہماری کائنات بے انتہا بڑی ہے۔ اس میں ستارے بھی ہیں اور کہکشائیں بھی، بلکہ ہماری کہکشاں یعنی ملکی وے، میں زمین جیسے سیارے بھی عربوں کی تعداد میں ہو سکتے ہیں ۔ ہم زمین کے اوپر رہتے ہیں جو کہ ایک سیارہ ہے، جو سورج کے گرد گھومتی ہے،اور سورج ایک ستارہ ہے جو ہماری کہکشاں کا ایک حصہ ہے۔ جدید تحقیقات بتاتی ہیں کہ ہماری کائنات میں تقریباً 2000 ارب کہکشائیں موجود ہیں، اور ہر کہکشاں میں 400 ارب یا اس سے بھی زیادہ ستارے موجود ہیں۔ درجنوں کہکشائیں مل کر ایک لوکل گروپ بناتی ہیں۔
ہمارے لوکل گروپ میں 54 کہشائیں موجود ہیں۔ ایسے ہی کئی لوکل گروپس مل کر کلسٹر بناتے ہیں اور ہم جس کلسٹر کا حصہ ہیں اسے ورگو کلسٹر کہا جاتا ہے، اس میں سو سے بھی زائد لوکل گروپس موجود ہیں۔ اسی طرح چھوٹے چھوتے کلسٹرز مل کر سپر کلسٹر بناتے ہیں، ہمارے سپر کلسٹر کا نام لیناکیا سپر کلسٹر ہے، اس کا سائز تقریباً 52 نوری سال ہے۔اب تک سائنسدانوں نے کئی سپر کلسٹرز دریافت کیے ہیں مگر اب فلکیات دانوں نے 11 ارب 40 کروڑ نوری سال کے فاصلے پرایک سپر کلسٹر دیکھا ہے جس کو ہائپریون پروٹو کلسٹر کا نام دیا گیا ہے، یہ کلسٹر تقریباً 10 ہزار کہکشاؤں پر مشتمل ہے۔ ہماری کائنات کی ابتدا ایک دھماکے سے ہوئی، جسے بگ-بینگ کہتے ہیں، تحقیقات بتاتی ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ہماری کائنات 3 لاکھ 80 ہزار سال تک اندھیروں اور اور گھنے بادلوں میں ڈوبی رہی۔ پھر کائنات کے کسی حصے میں انھیں بادلوں سے ایک ستارہ وجود میں آیا اور کائنات شفاف ہونے لگی۔آج سائنسدان دیکھتے ہیں کہ ہماری کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہوتی جا رہی ہیں کیونکہ ہماری کائنات پھیل رہی ہے، اگر ہم اسے الٹا کریں توآج سے 13.8 ارب سال پہلے ہماری کائنات ایک نقتے پر بند ہوتی ہے ، جسے سنگولیریٹی کہا جاتا ہے۔
آج سے ایک صدی پہلے تک کسی فلکیات دان کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ہماری کائنات میں اور کہکشائیں اور ستارے موجود ہیں بلکہ وہ کائنات کو نظام شمسی تک محدود کرتے تھے،اسٹرونمرز کو بھی اس بات کا نہیں پتہ تھا کہ کائنات میں اور بھی کہکشائیں موجود ہیں۔1923 میں ایڈون ہبل جس کے نام پر اس وقت خلا میں ٹیلی سکوپ بھی موجود ہے، نے پتہ لگایا کہ ایک کہکشاں جس کا نام اینڈرومڈا ہے. ہماری ملکی وے جیسی ایک کہکشاں ہے۔ اس کے بعد اسٹرونمرز کو پتہ چلنا شروع ہوا کہ ہماری کائنات میں بےتحاشہ کہکشائیں موجود ہیں۔ کچھ پہلی کہکشائیں تھیں اب وہ بدل چکی ہیں۔ کیونکہ پہلے وہ نوعمر کہکشائیں تھیں، ان میں اب بھی مختلف سرگرمیاں ہو رہی ہیں. شروع میں یہ کہکشائیں کچھ مختلف تھیں اور آہستہ آہستہ ان میں اور بھی تبدیلیاں آتی رہیں کیونکہ ان میں عربوں کی تعداد میں ستارے بن رہے تھے۔ جس سے معلوم ہوا کہ ہماری کائنات پچھلے 13.8 ارب سال سے بدلتی چلی آئی ہے۔ لیکن ہمیں اس بات کا علم کیسے ہوا کہ کائنات میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں؟ اس کا جواب ٹائم ٹریول ہے۔ جس طرح ابھی آپ یہ کتاب پڑھ رہے ہیں اس پرلائٹ ریفلکٹ ہو کر آپ تک پہنچ رہی ہے، یہ ٹائم بہت کم ہوتا ہے کیونکہ لائٹ کی اسپیڈ سیکنڈ/300000 کلو میٹر ہے، اسی لیے ہمیں محسوس نہیں ہوتا۔
ایک حیران کن بات یہ بھی ہے کہ اگر آپ لائٹ کی اسپیڈ میں چلیں تو صرف اور صرف ایک سیکند میں آپ زمین کے گرد سات چکر لگا سکتے ہو۔حقیقتاً آج جو واقعات و عجائبات ہم خلا میں دیکھ رہے ہیں یہ ماضی کے ہیں، اور آج ہم ماضی کو براہراست دیکھتے ہیں۔ آج جب ہم ہائپریون سپر کلسٹر کو دیکھتے ہیں یہ اب ہماری کائنات میں موجود نہیں بلکہ اس کا وجود اربوں سال پہلے ہی ختم ہوچکا ہے، مگر پھر بھی وہ ہمارے سے اتنے ارب نوری سال کے فاصلے پر تھا کہ اس کی روشںی ہم تک اب پہنچی ہے۔جب ہم چاند کو دیکھتے ہیں تو ہم اسےایسے دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے وہ ایک سیکنڈ پہلے تھا، مطلب کہ چاند کی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں ایک سیکنڈ لگتا ہے. جب ہم سورج کو دیکھتے ہیں تو وہ ہم آٹھ منٹ بیس سیکنڈ پہلے والا سورج دیکھ رہے ہوتے ہیں، اگراب سورج اپنی روشنی نکالنا بند کر دے یا اپنی جگہ سے غائب ہوجائے تو ہمیں آٹھ منٹ بیس سیکنڈ بعد پتہ چلے گا کہ سورج کے ساتھ کچھ ہوا تھا۔
ہمارے سورج سے جوسب سے قریبی ستارہ ہے وہ ہے سینٹوری سٹار سسٹم ہے، یہ تین ستارے ہیں جو ایک دوسرے کے گرد گردش کر رہے ہیں اور یہ ہمارے سے چار نوری سال کے فاصلے پر ہے، یعنی کہ اس کی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں چار سال لگیں ہیں۔اور اینڈرومڈا جس کو ایڈون ہبل نے دریافت کیا تھا، جس کی روشنی کو آج ہم آپنی ٹیلیسکوپ یا آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں یہ آج سے دو ملین سال پہلے کی ہے جب زمین پر انسان نہیں تھے! لیکن اگر آپ کو یہ پتہ کرنا ہے کہ آج وہاں کیا ہو رہا ہے تو آپ کو دو ملین سال انتظار کرنا ہوگا۔ اب تک ایسے کئی ستارے اور کہکشاں دریافت ہوچکی ہیں جو زمین سے اربوں نوری سال دور ہیں اور سائنسدان اس سے بہت خوش ہیں کیونکہ اس طرح وہ کائنات کے ماضی کو براہ راست دیکھ سکیں گے۔خلا بازاب بھی ان کہکشاؤں کو تلاش کر رہے ہیں جو زمین سے بہت دور ہوں تاکہ وہ اس کائنات کی پیدائش کے وقت ہونے والے واقعات کو دیکھ سکیں۔ یہ کائنات ابھی بھی اپنے اندر لاتعداد راض سمائے ہوئے ہے اور سائنسدان ان پر سے پردہ اٹھانے کیلئے دن رات ایک کر کہ کام کر رہے ہیں۔