حکومت کی طرف سے کالعدم جماعت تحریک لبیک ایک بار پھر وہ پرانے معاہدوں کو پورا نہ ہونے کی وجہ سے فیض آباد میں دھرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اس دوران پولیس کی روک تھام جاری تھی اور اسکے ساتھ ساتھ پولیس اور عوام ایک دوسرے پر جھڑپوں کی وجہ سے کئ لوگ شہید ہوئے سمیت پولیس کے جوانوں تک۔ لیکن بعد میں حکومت نے کالعدم جماعت کو کنٹرول کرنے کے لیے رینجرز کو بلا لیے تھے اور اس کو گولی چلانے کا حکم بھی دیا۔
گزشتہ روز مفتی منیب الرحمن نے ایک پریس کانفرنس میں یہ کہا کہ حکومت کے ساتھ معاہدہ طے پایا گیا ہے اور اس نے یہ بھی کہا کہ فرانسیسی سفارت خانے کو بند کرنے کا مطالبہ ہمارا نہیں تھا یہ حکومتی وزیروں نے جھوٹ بولا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیا منفی پہلو پیش کرنے کی بجائے مثبت پہلو پر زیادہ توجہ دے۔ایک پریس کانفرنس کے دوران جب وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے تحریک لبیک کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح جب شاہ محمود قریشی سے تحریک لبیک کے بارے سوال کیا گیا تو اس نے بھی سوال لینے سے انکار کرتے ہوئے یہ کہا کہ سب معاملات کو سمیٹ گئے ہیں اور کوئی سوال و جواب نہیں ہوگا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وقت آنے پر سب میڈیا پر واضح ہو جاۓ گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فواد چوہدری جواب دینے کو تیار نہیں ہیں اور شاہ محمود قریشی سوال لینے کو تیار نہیں ہیں۔ 13 نکاتی معاہدہ حفیہ طور پر کیا گیا ہے جو کہ حکومت اسکے تفصیلات سامنے لانے سے قاصر ہے۔
حکومت کی طرف سے اس مذاکرات میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان اور قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر شامل تھے۔ اس مذاکرات کے تفصیلات تو منظر عام پر نہیں لاۓ گئے البتہ ذرائع کا کہنا ہے کہ کالعدم جماعت تحریک لبیک آئندہ کسی لانگ مارچ یا دھرنا دینے سے گریز کریں گی اور آئندہ بطور سیاسی جماعت سیاسی دھارے میں شامل ہوگی۔ حکومت کالعدم جماعت کے کارکنوں کو رہا کرے گی تاہم دہشتگردی سمیت سنگین مقدمات کا سامنا کرنے والے کارکنوں کو عدالت سے ریلیف لینا ہوگا۔ دھرنے کے شرکاء کے خلاف حکومت کسی قسم کی کاروائی نہیں کرے گی۔حکومت نے سخت پوزیشن لی تھی۔27 اکتوبر کو جب کابینہ کا اجلاس ہوا تو اسکے بعد دو بڑی پریس کانفرنسز ہوۓ تھے۔
» ایک وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کی تھی
» جبکہ دوسری پریس کانفرنس وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کی تھی۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ کہا کہ پنجاب میں رینجرز بلاۓ جاۓ گے کیونکہ اب یہ جماعت عسکریت پسند جماعت بنا ہوا ہے اس کے ساتھ دہشتگروں جیسا رویہ اختیار کیا جائے گا۔ شیخ رشید نے یہ بھی کہا کہ اس جماعت نے پولیس پر براہ راست کلاشنکوف سے فائرنگ کردیا ہے۔ اور بھارت سے تحریک لبیک کا گٹھ جوڑ کا دعویٰ کیا جاتا تھا۔اسی طرح وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ کہا کہ تحریک لبیک ایک عسکریت پسند جماعت ہے اور اب اس کے ساتھ دہشتگروں جیسا نمٹا جائے گا۔ 27 اکتوبر کے پریس کانفرنس میں فواد چوہدری نے یہ کہا کہ انڈیا سے 2.5 ملین ٹویٹس پچھلے مرتبہ بھی ان کے حمایت ہوۓ تھے اور اس بار مجھے یقین ہے کہ اسکے اوپر سوشل میڈیا میں انڈیا کا ہاتھ ہوگا۔29 اکتوبر کو پھر فواد چوہدری نے یہ دعویٰ کیا کہ آج ڈی جی آئی ایس آئی نے کالعدم تحریک پر بریفننگ دی ہے لیکن اس کے مندرجات شیئر نہیں کرسکتا۔ اس نے یہ کہہ دیا کہ کالعدم تحریک لبیک کا مقصد ملک میں صرف فساد پیدا کرنا ہے۔لیکن آج ان کے ساتھ مذاکرات کرکے معاہدہ طے پایا گیا ہے۔ سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ آرمی چیف کا اس مذاکرات میں 100 فی صد نہیں بلکہ ہزار فی صد کردار ہے اور وہ طاقت کے استعمال کے حق میں نہیں ہے۔
اس مذاکرات اور معاہدہ طے پانے کے بعد حکومت کے ایک نمائندہ بھی تحریک لبیک سے متعلق بات کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی پریس کانفرنس میں سوال کے جواب دے سکتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان اختلاف ضرور پیدا ہوئے ہیں اور شاید یہ اختلافات مزید بڑے جس سے حکومت جانے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ جھاں تک شیخ رشید اور فواد چوہدری کی بات ہے تو وہ تو اسٹبلشمنٹ کے بندے ہیں۔”پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ” میں جب شیخ رشید سے پوچھا گیا کہ آپ نے کہا تھا کہ تحریک لبیک کے ساتھ اب کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے اور اب طاقت کا استعمال کریں گے تو جواب شیخ رشید نے کہ کر معافی مانگی کہ انسان سے غلطی ہو سکتی ہے اور جب فواد چوہدری کو شیخ رشید کے معافی کے بارے میں آگاہ کردیا تو اس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات نہ کرانے کی سمری تو خود وزارت داخلہ نے بھیجا تھا۔ حکومت اب خطروں سے دوچار ہے کہ اب کیا کرنا ہے۔ معاہدے کے تحت کالعدم جماعت تحریک لبیک کالعدم سے ایک سیاسی جماعت بنے گی اور جو بھی اس کا موقف ہوگی وہ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔