Skip to content
  • by

ہمارا نظام تعلیم(زوہیب احمد)

(قسط اول)
تعلیم کیا ہے؟ تعلیم صرف لکھنے اور پڑھنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو زندگی گزارنے کے طریقوں کا شعور دیتا ہے اور اس میں زندگی کے مقاصد و فرائض کا احساس پیدا کرتا ہے۔ گویا کہ تعلیم ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت کا نام ہے اور اس مقصد اونچے درجے کے ایسے مہذب افراد پیدا کرنا ہے جو اچھے انسانوں اور ریاست کے ذمہ دار شہریوں کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے کے اہل ہوں اس لحاظ سے ایک قوم کی زندگی کا انحصار ہی اس کی تعلیم پر ہے اور تعلیم ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے افراد کی تعمیر ممکن ہے۔

تعلیم و تربیت ہی کے ذریعے انسان میں وہ اعلیٰ صفات پیدا کی جاسکتی ہیں کہ وہ نہ صرف خود ایک اچھا انسان بن سکے بلکہ اپنے ملک اور معاشرے کے لیے مفید اور کار آمد فرد ثابت ہوسکے۔ نظام تعلیم کی اسی اہمیت کے پیش نظر موجودہ دور کی تمام ترقی یافتہ قومیں افراد کی تعلیم و تربیت پر زور دیتی ہیں۔ افراد کی تربیت محض افراد کی تربیت نہیں ہوتی بلکہ دراصل ایک قوم کی تربیت ہوتی ہے۔ تعلیم و تربیت کے ذریعے افراد تیار نہیں ہوتے قوم تیار ہوتی ہے۔ بقول علامہ اقبال صاحب

~ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

پاکستان 14 اگست 1947ء کو اسلام کے نام پر آزاد اسلامی مملکت کی حیثیت سے معرضِ وجود میں آیا تھا اور اس ملک کا قیام کی غرض و غایت یہی تھی کہ ایک ایسا الگ خطہ زمین حاصل کیا جائے جھاں پر اسلامی اقدار اور اسلامی نظام زندگی کو پروان چڑھایا جائے۔ اس لحاظ سے۔ اس لحاظ سے ایک ایسا نظام تعلیم پاکستان کی اولین ضرورت تھا جو نظریہ پاکستان یعنی اسلام کی بنیاد پر قائم ہو اور اسی نظریے کے مطابق نئی نسل کی تربیت اس طرز پر کرے کہ وہ قیام پاکستان کے مقاصد کو بطریق احسن پورا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ مگر افسوس اسے ہماری بد قسمتی یا نااہلی سمجے کہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود پاکستان میں وہی نظام نافذ العمل ہے جو ہمیں انگریزوں سے ورثے میں ملا تھا۔ یہی وہ لارڈ میکالے کا تجویز کردہ نظام تھا اور اس نے یہ واضح طور پر یہ کہا تھا کہ “ہمارا مقصد ایسے تعلیم یافتہ افراد پیدا کرنا ہے جو اپنی نسل اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہوں مگر ذہن و فکر کے اعتبار سے وہ انگریز ہوں” اور یقیناً وہ اس مشن میں کامیاب ہوئے ہیں کیونکہ ظاہری اور نسلی طور پر تو ہم پاکستانی ہیں لیکن ذہن و فکر کے طور پر ہم انگریز بنے ہوئے ہیں۔(جاری ہے۔۔۔۔۔۔)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *