Skip to content

حضرت عبداللہ شاہ غازی

“عبد اللہ شاہ غازی “

سندھ کی سر زمین ہمیشہ سے ہی عرفان و تصوف کا سر چشمہ رہی ہے ۔بیشمار بزرگان دین کا اور صوفی اکرام کا تعلق سندھ سے رہا ہے ۔اللہ تعالی کی ان برگزیدہ شخصیات نے مختلف طریقوں سے اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے لیے کام کیا۔ان مقدس ومکرم ہستیوں نے لوگوں کے دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کرکے اخلاق و اطوار کو سنوار کر شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر گامزن کردیا۔

تمام بزرگان دین اور اولیاء اکرام و صوفیاء اکرام اس شجرہ مبارک کی مختلف ٹہنیاں اور شاخیں ہیں ، حیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمے سے سیراب ہوئی ہیں ۔ان ہی کی فہرست میں حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمہ اللہ علیہ بھی شامل حال ہیں۔حضرت عبد اللہ شاہ غازی ،حضرت امام حسین علیہ السلام کے بیٹے حسن مثنی کے پوتے امام محمد نفس الزکیہ کے فرزند تھے۔آپ کی پیدائش 720ء میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔حضرت عبد اللہ شاہ غازی نسبتاً سید بادشاہ ہیں ۔اور وہ بھی حسنی حسینی سید ہیں ۔حضرت حسین کی گیاروہیں پشت سے پیدا ہوئے۔

شجرہ نسب

” ابو محمد عبد اللہ الاشتر، بن محمد نفس زکیہ، بن عبد اللہ محض، بنحسن مثنی، بن امام حسن ،بن علی بن ابی طالب

آپ کا نام مبارک “عبداللہ ” ہے اور لقب “الاشتر “ہے ۔الاشتر سے مراد وہ شخص ہے جس کے پپوٹے اس کی آنکھوں پر جھکے ہوئے ہوں ۔آپ کا شمار ان اولیاء اکرا م میں ہوتا ہے جن کی زندگی کا بڑا حصہ جہاد فی سبیل اللہ میں گزرا ۔مجاہد ہونے کی وجہ سے آپ کو “غازی ” کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔آپ کے صاحبزادے ابو الحسن محمد کے نام کی نسبت سے آپ کو ابو محمد بھی کہا جاتا ہے۔اس طرح آپ کا مکمل نام “سید ابو محمد عبد اللہ اشتری غازی “ہے۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت فاطمۃ الزھراء رضہ
حضرت علی رضہ
حضرت امام حسن عہ، حضرت امام حسین عہ
حضرت حسن مثنی عہ=حضرت فاطمہ عہ بنت الحسین
حضرت عبد اللہ محض رحہت کی گیارہ اولادیں
حضرت نفس زکیہ رحہ
(حضرت نفس زکیہ کی گیارہ اولادیں)
“حضرت عبد اللہ اشتر عبد اللہ شاہ غازی رحہ “

تعلیم و تربیت اور سند ھ میں آمد

آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والد ( جن کا شمار اپنے وقت کے بڑے محدثین میں ہو تا ہے )کے زیر پرست مدینہ منورہ میں ہی ہوئی ۔اموی خلافت کے زوال پذیر پر آپ کے والد نے مدینہ منورہ میں علوی خلافت کی تحریک شروع کی ۔اور اسی سلسلے کے لیے آپ نے اپنے بھائی کو بصرہ روانہ کیا۔حضرت عبد اللہ شاہ غازی کے والد نے آپ کو بھی اپنے بھائی کے ساتھ بصرہ بھیج دیا۔اور آپ وہاں سے ہوتے ہوئے سندھ کی جانب روانہ ہوئے ۔ابن کثیر نے” تاریخ الکامل ” میں جلد پنجم میں لکھا کہ آپ خلیفہ منثور کے دور میں760 ءمیں سندھ تشریف لائے ۔آپ ؒ کے سندھ آمد کے وقت عباسیوں اور علویوں کے مابین خلافت پر شدید لڑائیاں جاری تھی اور اہل سادات (جن کا جد امجد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہو) کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔آپ گھوڑوں کے تاجربن کر سندھ میں داخل ہوئے تھے تاکہ آپ عباسی حکومت کے لوگوں سے محفوظ رہ سکیں۔ آپ رحمہ اللہ نے دین کی دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا جس کی وجہ سے بہت کم وقت میں بے شمار لوگ آپ کی طرف راغب ہو ئے۔آپ رحمہ اللہ کی مخالفت میں آپ کے حاسدین نے اس وقت سندھ کے گورنر عمر بن حفص کو حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی رحمہ اللہ کے خلاف بھڑکانے کی بہت کوششیں کیں ،لیکن عمر بن حفص پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا کیوں کہ عمر بن حفص سید ذات کی بہت عزت اور احترام کرتے تھے۔ اسی لئے گورنر سندھ نے ان کو دین کی دعوت ا ور تبلیغ سے منع نہیں کیا ۔

آپ رحمہ اللہ کے والد کی شہادت

بغداد سے سندھ کے گورنر کو آپ کے والد کی شہادت کی اطلاع دی ۔اور کہا کہ حضرت عبد اللہ شاہ غازی کے والد گرامی حضرت محمد نفس زکیہ خلافت عباس کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہوچکے ہیں ۔اب حضرت عبد اللہ شاہ غازی کو گرفتار کرکے خلیفہ منصور کے دربار میں پیش کردیا جائے ۔عمر بن حفص گورنر سندھ نے اس حکم کو ٹالنے کی کوشش کی لیکن خلیفہ منصور راضی نہ ہوا۔تو حالات پیش نظر آپ رحمہ اللہ علیہ السلام کو گورنر سندھ نے سندھ کے ساحلی پٹی پر موجود ریاست میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔وہاں کا راجہ اسلامی حکومت کی اطاعت کرتا تھا ۔اس کو حالات سے آگاہ کر کے ان کی حفاظت بڑھا نے کا حکم دے دیا۔راجہ نے آپ رحمہ اللہ کی تعظیم و تکریم کی اور آپ رحمہ اللہ سال تک دعوت و تبلیغ کرتے رہے۔آپ کے والد کی شہادت کے بعد خلیفہ منصور حضرت عبد اللہ شاہ غازی کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگا تھا ۔

حضرت عبد اللہ شاہ غازی کی شہادت

خلیفہ منصور نے عمر بن حفص کو گورنر سندھ کے عہدے سے معزول کرکے ہشام بن عمر کو نیا گورنر مقرر کر دیا ۔اور یہ بھی سید ذات کے محب نکلے اور ان کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا۔اسی دوران حکومت کے خلاف بغاوت شروع ہو گئی ۔اس بغاوت کو کچلنے کے لیے ہشام بن عمر نے اپنے بھائی سفیح بن عمر کو بھیجا ۔جب یہ لشکر سندھ کے ساحلی کنارے پر پہنچا تو وہاں پر ایک اور لشکر پایا جوکہ حضرت عبد اللہ شاہ غازی کا تھا ۔جو کہ علاقے میں سیر کی غرض سے آیا ہوا تھا۔سفیح بن عمر نے اسے باغی لشکر سمجھتے ہوئے اس پر حملہ کر دیا۔حضرت عبد اللہ شاہ غازی کے بہت سمجھانے پر بھی وہ نہ سمجھے اور اسی جنگ کی زد میں آکر آپ کو بھی شھید کردیا گیا ۔ آپ رحمہ اللہ کے مریدین آپ کے جسد خاکی کو لے جھاڑیوں میں روپوش ہو گئے ۔اور مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے سندھ آ پہنچے۔اور ساحلی ریاست کے ایک پہاڑ کی چوٹی پر آپ کو 151ھ میں (تاریخ وصال پر اختلاف ہے) دفن کردیا گیا ۔

حضرت عبداللہ شاہ غازی کی کرامات

آپ کے مریدین نے آپ کی محبت میں کی قبر مبارک کے پاس ہی سکونت پذیر ہوئے اونچائی پر ہونے کی وجہ سے آپ کے مریدین کو پانی لینے جانے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ایک دن آپ کے مریدوں نے گڑگڑا کر اللہ کی بارگاہ میں دعا کی ۔ اسی رات آپ کے مریدوں میں سے کسی کے خواب میں حضرت رحمہ اللہ علیہ تشریف لا ئے ،اور بشارت دی کہ اللہ نے آپ لوگوں کی دعا سن لی ہے ۔اور اگلی صبح جب سب اٹھے تھ پہاڑ پر ایک چشمہ سے پانی بہتے دیکھا ۔اس چشمہ کے پانی سے تمام مرید ین سیراب ہوئے ۔یہ چشمہ ابھی بھی بہہ رہا ہے اور مختلف لوگ مختلف جگہوں سے اس سے استفادہ حاصل کرنے آتے ہیں ۔یہ چشمہ آپ کی کرامت مانا جاتا ہے ۔آپ کے مزار پر آنے والے ہر عقیدے کے لوگ شامل ہوتے ہیں اور یہاں آکر وہ اپنے دلوں کو تقویت دیتے ہیں اوریہاں پر لوگوں کی مرادیں پوری ہوتی ہیں ۔

“Shrine of Hazrat Abdullah Shah Ghazi is the oldest one in Karachi (Sindh). Built on the sandy seaside of the city almost 10 centuries ago.”

حضرت رحمہ اللہ کی سندھ میں اسلام کی اشاعت و تبلیغ

سندھ کی اس بنجر زمیں پر اور لوگوں کے بجھے دلوں میں سب سے پہلے حضرت عبد اللہ شاہ غازی نے اسلام کا بیج بویا۔اس کو محبت ،اخوت ،بردباری سے دلوں میں اپنا مقام بنایا اور ایمان کے بیج سے سر زمین سند ھ کو ہرا بھرا کیا۔

مزار شریف

کراچی کے ساحلی علاقےمیں ، (کلفٹن ) آپ رحمہ اللہ علیہ کے مزار پرنور پر ہر عام و خاص زیارت کے لیے آتے ہیں۔آپکی نورانیت اور برکت سے شہر کراچی اور پورے پاکستان کو فیض پہنچ رہا ہے۔عرس کے موقع پرپورے پاکستان سے لاکھوں زائرین مزار پر حاضری اور فاتحہ خوانی کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔

1 thought on “حضرت عبداللہ شاہ غازی”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *