طلاق کی ایک وجہ جہیز بھی ہے

In تعلیم
June 03, 2021
طلاق کی ایک وجہ جہیز بھی ہے

طلاق کی ایک وجہ جہیز بھی ہے،کائنات کا سب سے پہلا رشتہ میاں بیوی کا ہے اس کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شیطان نے اپنے چیلوں کو خبردار کیا ہوا ہے کہ میری خوش نودی حاصل کرنے کےلیے میاں بیوی کے درمیان دراڑ ڈال دیں، یہ حکم شیاطین مانتے ہیں یا نہیں البتہ اس کی اس خواہش کو انسان بطریقِ احسن پورا کررہا ہے۔

جائزاعمال میں سے طلاق اللہ تعالی کوسب سے زیادہ ناپسند ہے،اس کا رجحان ہر طبقے میں بڑھتا جا رہا ہے 2020 میں یہ شرح خطرناک حد تک جا پہنچی،ان میں سے کچھ وجوہات ایسی ہوتی ہیں جن میں جلد بازی کے رشتے، بغیر چھان بین کے،دھو کہ فراڈ، مذہبی وجوہات،وٹہ سٹہ،ذات پات کی پابندی کی وجہ سے بے جوڑ رشتے ذہنی ہم آہنگی کا فقدان بڑی عمرمیں شادی اس کے علاوہ کچھ وجوہات ایسی ہیں جو صرف چھوٹے طبقے میں پائی جاتی ہیں اگرچہ ہم اس شرح کو مکمل طورپرختم تونہیں کر سکتے لیکن کم کرسکتے ہیں۔ چند ایک وجوہات جو ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں وہ یہ کہ جہیز کا لالچ اگرچہ یہ ہر طبقے میں آچکا ہے لیکن غریب کی مجبوری بن گیا ہے،سب مسلمان اس بات سے آگاہ ہیں کہ جہیز لعنت ہے اور وراثت فرض ہے لیکن وراثت کودبانے کے لیے جہیز کا نام دے دیا جاتا ہے اس میں امیرکا فائدہ اورغریب کا نقصان ہے کیونکہ ان کے پاس وراثت میں دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا جہیز کے نام پروہ اپنی کمر توڑ بیٹھتے ہیں۔ جب کسی غریب کی بیٹی کی شادی ہوتی ہے توامرا اسے جہیز کے نام پر کچھ دے دیتے ہیں ۔

دوسری طرف رشتہ جوڑنے والے بھی اس بات پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں کہ جہاں سے ہمیں زیادہ جہیز ملے گا وہیں پر تعلق بنائیں گے اب جب لڑکی کو جہیز مل جاتا ہے تو وہ غریب گھرانے کی لڑکی سے مالی لحاظ سےمتوسط گھرانے کی لڑکی کے برابر ہو جاتی ہے۔ اس کے والدین سوچتے ہیں کہ وہ کسی غریب لڑکے سے رشتہ نہیں جوڑیں گے بلکہ انہیں بھی یہی ہوتا ہے کہ جب ہم نے جہیز دینا ہے تو پھر لڑکا مالی لحاظ سے اس جہیز کے ہم پلہ ہونا چاہیے۔اسی چکر میں لڑکی کی عمر نکل جاتی ہے یہی معاملہ لڑکے کے ساتھ ہوتا کہ جب تک وہ بری دینے کے قابل نہیں ہوجاتا شادی نہیں ہو سکتی ،بڑی عمر میں جب شادیا ں کی جائیں تو پھربے اولادی جیسے مسئلے سامنے آتے ہیں عورتیں جعلی پیروں کے استانوں پراور مرد حکیموں کی دوکانوں کے چکرکاٹتے ہیں ناکامی کی صورت میں دونوں ایک دوسرے پرالزام لگاکررشتہ توڑ دیتے ہیں۔

روزی روٹی کمانا مرد کی ذمہ داری ہے اور جن کے پاس اعلی تعلیم اور پیسہ یا ہنرنہیں،نہ تو انہیں کوئی مستقل نوکری مل سکتی ہے اور نہ ہی ان کے حالات اس قابل ہوتے ہیں کہ کوئی اپنا کاروبار کر سکیں اس کسم پرسی کی وجہ سے کوئی انہیں رشتہ دینے کو تیار نہیں ہوتا،سرمایا دار طبقے کوچایے کہ بجائے لڑکیوں کوجہیزکے نام پر دیا جائے غریب لڑکوں کی مدد کرکے ان کا کوئی روزگار بنا دیا جائے ، تاکہ وہ کچھ کمانے کے قابل ہو سکیں، چاہے وہ اسے ادھار ہی دیا جائے جب حالات بہتر ہوں گے تو جہیز پر نظر نہیں ہوگی ،کیوں کہ ان کی اپنی بہنیں بھی ہوتی ہیں اگر دل میں اس خیال کو رکھیں گے تو اپنی بہنوں کے لیے بھی جہیزجمع کرنا پڑے گا،اور ویسے بھی جہیز بھی تو لڑکے ہی کے گھر جانا ہوتا ہے اس سامان کی جگہ روزگار مل جائے تواس طرح نکاح بھی آسان ہوجائے گا اورکسی حد تک برائی سے بھی بچ جائیں گے، اس لیے ہم اپنے آپ کو بدلیں اس فرسودہ تہذیب کو بدلیں جوہماری ہے ہی نہیں، اپنے معاشرے کی روایات کو بدلنے کی ضرورت ہے .

دوسروں کو روزگار،کاروبارمہیاکریں ،دوسروں کی مدد اس طرح کریں تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں مد د کا مطلب یہ ہرگزنہیں ہوتا کہ کسی کو روپیہ پیسہ دیا جائے کہ بیٹھ کر کھائیں (یہ مفلوج کے لیے ہے ) یاچند دن کی بھوک مٹانے کا زریعہ بنیں، بہترین طریقہ یہی ہے کہ دوسروں کا روزگار بنا دیا جائے تاکہ وہ خودکمائیں اور محتاجی کے طوق سےآذادی ملے، قومیں ترقی ایسے نہیں کرتیں کہ ہم دوسروں کوکھانا کھلا دیں ترقی پیداواربڑھانے سے ہوتی ہے ترقی ہنرسیکھنے سے ہوتی ہے کچھ ایساکریں جس سے وہ خود کمائیں، تاکہ روزی روٹی کو رشتہ داری کے ساتھ منسلک نہ کیا جائے،خالص انسان اور انسانیت کو دیکھا جائے، اوراپنے عدو کو خوش ہونے کا موقع ہی نہ دیا جائے،ہم مسلمان ہیں اور اسلام کے مطابق رشتہ داری کن بنیادوں پرکرنی چاہئے.

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمروبیان کرتے ہیں،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا “دنیا مکمل طور پر مطاع ہےاور بہترین مطاعِ دنیا نیک بیوی ہے۔مشکاۃ حدیث 49

اچھی بیوی کون سی ہوتی ہے اس کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں ہمارے معاشرے میں ان چیزوں پر توجہ نہیں دی جاتی ہے جب بنیاد ہی غلط ہوگی تو اثر پوری عمارت پرپڑتاہے ، رشتہ جوڑتے وقت کیا دیکھا جاتا ہے سب سے پہلے مالی حالات پھر لڑکی یا لڑکے کی شکل و صورت اور ان کی ڈگریاں،لیکن ان کی شرافت ان کے ہنراوران کی سلیقہ مندی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے پھر جب وہی لڑکی گھرآ جاتی ہے تومال و متاع ہتھیا نے کے بعد گھر داری یاد آتی ہے اوراسے سلیقہ مندی سکھائی جاتی ہے وہ تو ان چیزوں کی عادی نہیں ہوتی یہاں سے اختلاف شروع ھوتے ھیں ان وجوہات کی بناپر جوگھر خراب ہوتے ہیں وہ باقائدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوتے ہیں دنیا کاہوس انسان کو کھا جاتاہےزرا زرا سی بات پرایمان بیچ دیا جاتاہے ،ہرچیز کی ایک قیمت ہوتی اسے سستا بیچنا اس کی قدر کم کرناہے،اسی طرح ایمان کی بھی ایک قیمت ہے اگر بیچناپڑے تو اس کی پوری قیمت وصول کریں اور اس کی قیمت کیا ہے .

مول ایماں کا صرف جنت ہے
اپنی قیمت نہ تم گھٹا د ینا
جا گ کرخود کنیز اوروں کو
خوابِ غفلت سے تم جگا د ینا
کنیز بتول کھوکھر

9 comments on “طلاق کی ایک وجہ جہیز بھی ہے
Leave a Reply