تدریسی نصاب میں ”ریاستی قوانین کی تعلیم “کی شمولیت

In تعلیم
January 15, 2021

تدریسی نصاب میں ”ریاستی قوانین کی تعلیم “کی شمولیت
موجودہ دور حکومت میں ملک کے تعلیمی نظام کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے تبدیلی لانے کی بات ہورہی ہے۔ ہم یہ بھی سنتے ہیں کہ نا صرف معیار تعلیم بہتر ہو بلکہ یکساں نظام تعلیم بھی رائج ہونا چاہیے ۔ معیاری تعلیم کتنا بہتر ہوگا اس بات کا اندازہ ہمیں اقدامات کے نفاذ کے بعد ہی ہوگا لیکن کچھ مضامین کو تعلیم کی ثانوی اوراعلی ثانوی سطح پر تدریسی نصاب میں شامل کرنے کی فوری اور اشد ضرورت ہے ۔ ان مضامین میں سے سب سے اہم مضمون”ریاستی قوانین کی تعلیم “ہے
قانون اور ریاست کی وضاحت :سب سے پہلے ریاست کی وضاحت ضروری ہے یعنی کسی خطہ ارض پر ایک منظم ملت کے باہمی اشتراک سے اور منظم جدوجہد سے حکومت بنائی جائے ریاست کہلاتی ہے اور قانون یعنی کہ ریاست جن اصولوں پر وجود میں آتی ہے اس کو قائم رکھنے کے لیے جو تحفظ کیا جاتا ہے اسے قانون کہتے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت اس طرح بھی ہو سکتی ہے کہ ایک ریاست میں رہنے والے افراد کے حقوق وفرائض کے درمیان توازن قائم رکھنے کا دوسرا نام قانون ہے ۔یعنی کسی کی حق تلفی بھی نہ کی جا سکے اور لوگ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ آزادانہ طریقوں سے اپنی اپنی حدود میں زندگی گزار سکیں۔
ریاست کے قوانین سے ناآشنائی کا نقصان :ریاست میں رہنے والے افراد میں ریاست کے قوانین سے اگر نا آشنائی ہوتی ہے تو اس کا نقصان صرف ایک شخصیت کو نہیں ہوتا بلکہ ریاست کو ہی پہنچتا ہے۔ترقیافتہ ممالک قانون کا علم بھی رکھتے ہیں ور اسکی بالادستی بھی قائم رکھتے ہیں کیوں کہ اقوام کی ترقی کا انحصار ریاستی قوانین پر عمل پیرا ہونے سے ہے۔ قانون کا احترام اور اہمیت اسی وقت اجاگر ہوتی ہے جب پوری قوم کو ریاست کے قوانین کا شعور ہو۔

شعور و آگہی کی کمی : مہنگے اور بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود عوام میں شعور و آگہی کی کمی نظر آتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ریاستی قوانین کی تعلیم کو عام نہ کرنا ہے ۔ اگر ہم معاشرے کی چند مثالیں لیں تو ہمیں نظرآئےگاکہ اکثر کسی ادارے میں کام کرنے والے ملازمین کو، کسی روڈ ایکسیڈنٹ کے واقعات میں دونوں فریقین کو ، شادی شدہ افراد کو، مزدور طبقے کو، مالک مکان اور کرایہ دارکومعلوم ہی نہیں ہوتا کہ اگر وہ کسی ایسے مسئلے میں گھر جاتے ہیں جس میں قانون کا سہارا لینا پڑے تو انکا قانونی جرمانہ، سزا یا حقوق کیا ہونگےجب تک کسی قانون دان کی خدمات حاصل نہ کر لیں۔ کیونکہ ہم قوانین کی تعلیم کو عام کرنے کے لئیے اہمیت اور توجہ ہی نہیں دیتے ۔
ملک میں قوانین پر عمل درآمد کم کیوں :آج ملک میں قوانین پر عمل درآمد ہوتا ہوا کم ہی نظر آتا ہے ۔اس کی ایک وجہ ریاست کے اداروں کی کمزوری اور نااہلی ہے اور دوسری بڑی وجہ لوگوں میں قانون کی کم علمی ہےکیونکہ ہم زیادہ سے زیادہ بزنس، ڈاکٹری، انجینئرنگ اور ٹیکنیکل کو ہی تعلیم سمجھتے ہیں اور وہی آگے نسل میں منتقل کر دیتے ہیں۔ قانون کی کم علمی شعور اور آگہی دونوں ہی کو محدود کر دیتی ہے۔ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ان ڈگریوں کے ساتھ ساتھ ہمارے بچوں کو ایک ریاست میں زندگی گزارنے کے قوانین سے بھی روشناس کرانا بہت ضروری ہے۔ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایل ۔ایل۔ بی اور ایل ۔ایل۔ ایم کی ڈگری کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ بھی انتخاب کرنے میں منحصر ہوتا ہے۔ لہذاضرورت ہے کہ قانون کی تعلیم کو عام نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ یعنی ثانوی وراعلی ثانوی تعلیم کی سطح پر نصاب شامل کیا جائے۔

ریاستی قوانین کی تعلیم کا عام ہونے کا فائدہ :قانون اقوام کی بنیادیں مضبوط بناتا ہے اور قانون کی نافرمانی بنیادیں کمزور کر دیتی ہیں۔قانون کی تعلیم اور آگہی اتنی عام ھوگئی تو معاشرے میں واضح فرق دکھائی دے گا ۔کوئی انسان دوسرے انسان کے حق تلفی کرتے ہوئے سوچے گا اس طرح قانون کی بالادستی قائم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر جماعت کی مطابقت سے مضمون”ریاستی قوانین کی تعلیم “کا کورس تتیب دیا جائے۔ قانون میں ہونے والی تبدیلیوں کی بروقت تعلیم بھی ان کو دی جائے ۔ اساتذہ ایسے لائے جائیں جو وکیل ہو ں یا جو قانون جانتے ہو اس طرح ان کو اپنے کاموں میں سے کچھ وقت نکالنا ہو گا جس کے عوض ان کو معاوضہ ملے اس طرح ان کی آمدنی میں اضافہ ہوگا ۔نہ صرف یہ بلکہ جو حضرات فرماتے ہیں کہ و کیلوں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے ان کو اپنی آمدنی کے لیے خدمات سرانجام دینے کا موقع بھی ملے گا۔ شروع ہی سے قانون کی تعلیم ذہن نشین ہوگئی تو انسانی نفسیات ہے کہ اپنی زندگی کے ہر پہلو میں قانون کو اہمیت دیں گے۔

1 comments on “تدریسی نصاب میں ”ریاستی قوانین کی تعلیم “کی شمولیت
Leave a Reply