عصرِ حاضر میں اخلاقیات کا فقدان
تحریر اجمل خام
موجودہ دور میں اگر بچوں کی تعلیم و تربیت اور اخلاقیات کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو یقیناً ایک مایوس کُن نتیجہ آنکھوں کے سامنے ہو گا .مگر میرے نقطہ نظر سے اس سے زیادہ مایوس کُن اور خطرناک بات یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ بڑوں میں بھی تربیت کی شدید کمی اور اخلاقیات کا سخت فقدان ہے .اسکی وجہ ہماری انا پرستی ہے کیونکہ ہماری اکثریت خود کو بڑا آدمی ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی .
ہمارے معاشرے کا ہر دوسرا شخص اخلاقیات کا لباده اوڑھے خود کو پارسا اور روشنی کا مینار ثابت کرنے میں لگا ہے. مگر بلاشبہ اس لبادے میں ایک خونخوار بھیڑیا چھپا ہوتا ہے. اِلاماشاءاللہ اس بات میں کچھ شک نہیں کہ آٹے میں نمک کے برابر حقیقی اچھے لوگ موجود ہیں. میں یہاں کسی خاص طبقے کی طرف اشارہ نہیں کر رہا مگر ہمارے نوے فیصد لوگ اسی لبادہ کے دلداده ہیں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کو اخلاقیات کا درس دیتے ہیں .اور تربیت تربیت کا راگ الاپتے ہیں. مگر جب ان کے معاملاتِ زندگی اور عوام الناس کیساتھ معاملات کا مشاہدہ کیا جائے. تو یہ بات روزِ روشن کیطرح عیاں ہوتی ہے کہ یہ بناوٹ کے لبادے میں چھپے حقیقی طور پہ اخلاقیات سے محروم انسان ہیں .اور مشہور ضرب المثل اوروں کو نصیحت خود میاں فصیحت ان پہ صادق آتی ہے .آج بچوں کی تربیت اور اخلاقیات کے حوالے سے لیکچر دئیے جاتے ہیں بچوں میں اخلاقیات کی عدم دستیابی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے .مگر کیا کبھی اس طرف توجہ دی گئی کہ اسکا ذمہ دار کون ؟ جی ہاں مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں .کیونکہ آج ہمارے گھروں میں سب سے زیادہ پسندیدہ موضوع جو زیرِ بحث ہے. وہ ہمارے رشتہ دار ہیں جی بالکل آج بچوں کو ہم یہی تاثر دے رہے ہیں کہ آپ کی پھوپھو آپ کی خالہ آپ کے چچا تایا ماموں ممانی یہی آپ کے سب سے بڑے دشمن ہیں .رشتہ داروں کے بعد آپ کے ہمسائے آپ کے دشمن ہیں قرآن و احادیث کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں بارہا گھر والوں رشتہ داروں اور ہمسایوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا جا رہا ہے.
مگر ہم ہیں کہ ان کیساتھ دشمنوں سے بھی بڑھ کر سلوک کرتے ہیں. اور ان سب باتوں کی وجہ بڑوں میں اخلاقیات کی عدم دستیابی ہے.جب آپ اپنے گھر کے دروازے پہ دستک سُنتے ہی بچے کو یہ کہتے ہیں کہ بیٹا اگر کوئی میرا پوچھے تو کہنا بابا گھر نہیں. تو آپ خود فیصلہ کریں آپ کا بچہ آپ سے کیا سیکھ رہا ہے؟ کیونکہ بچے بڑوں سے سیکھتے ہیں اور جب بڑے ایسا ڈیمو پیش کریں گے تو اسمیں بچوں کا کیا قصور؟ کیونکہ آپ نے اپنی تربیت اور اپنے اخلاق کے مطابق اپنے بچوں کو ڈھالا اب حقیقت سے منہ چھپاتے ہوئے سارا ملبہ بچوں پہ نہ ڈالیں بلکہ آج بھی اگر آپ ابھی سے یہ مصمم ارادہ کریں کہ آپ نے اپنے بچوں کیلئے ایک رول ماڈل بننا ہے آپ نے ان کے اخلاق سنوارنے ہیں آپ نے انہیں بولنے کی تمیز سکھانی ہے. آپ نے انہیں آداب سکھانے ہیں آپ نے انہیں معاشرے کا ایک باوقار شخص بنانا ہے. ایک ایسا شخص کہ جس کی شخصیت دوسروں کیلئے مشعلِ راہ ہو جس کی شخصیت ایک سنگِ میل کی حیثیت سے اُبھرے تو اس کے لئے بہت آسان کُلیہ ہے پہلے اپنی سوچ بدلیں پہلے اپنے اندر تبدیلی لائیں پہلے اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کریں تو یقیناً آپ کے بچے کل آپ کی پہچان بنیں گے وہ آپ کیلئے عزت کا باعث ہوں گے.
وہ آپ کے نام کو روشن کریں گے اور وہ کسی کو زبان سے بتائے بغیر معاشرے میں یہ ثابت کریں گے کہ وہ کسی اچھے خاندان سے ہیں پھر آپ کی شخصیت کسی خاص تعارف کی محتاج نہیں رہے گی کیونکہ اچھے خاندان کی شخصیات کے طور طریقے بتا دیتے ہیں کہ ان کی شخصیت کی تعمیر ایک سایہ دار شجر تلے ہوئی اور ان کے اخلاق ان والدین نے سنوارے کہ خود جن کے دل میں اخلاقیات کی شمعیں روشن ہیں جو خود دوسروں کیلئے حقیقی روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتے ہیں اور میرا خیال ہے اس سے بڑھ کر کسی تعارف کی ضرورت نہیں اور اگر ضرورت ہے تو اسی امر کی کہ ہم پہلےخود اخلاقیات کے دامن کو مضبوطی سے پکڑیں تا کہ ہماری آنے والی نسلیں معاشرے میں باوقار افراد کی حیثیت سے اپنا مقام حاصل کر سکیں.